1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’رائش ٹاگ‘ میں جرمن پارلیمان کا پہلا اجلاس: 150 برس قبل

21 مارچ 2021

مارچ 1871ء میں جرمن سلطنت کی برلن میں قائم پارلیمان ’رائشٹاگ‘ میں پہلی بار اجلاس منعقد ہوا۔ یہ جرمنی کا جمہوریت کی طرف بڑھنے کے ضمن میں ایک اہم قدم تھا، یعنی سیاست میں عوامی شمولیت۔

https://p.dw.com/p/3quhu
Deutschland Reichstag 1871 Leipziger Straße in Berlin
تصویر: Austrian Archives/IMAGNO/picture alliance

جرمنی کی 'بنڈسٹاگ‘ کہلانے والی پارلیمان ملک کے 'ویزیٹنگ کارڈ‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ برلن کی اس عمارت کی سب سے منفرد اور قابل دید چیز اس کی گنبد نما چھت ہے جو پوری شیشے کی بنی ہوئی ہے۔ یہ سیاسی شفافیت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یہاں 709 منتخب اراکین پارلیمان تمام تر قوانین کا فیصلہ کرتے ہیں جن میں غیر ملکوں میں جرمن فوج کی تعیناتی کے بارے میں فیصلہ بھی شامل ہوتا ہے۔

پیدائش جرمن پارلیمان کے تہہ خانے میں اور ملاقات 75 سال بعد

یہ پارلیمانی اراکین ہی جرمنی کے چانسلر کا انتخاب کرتے ہیں اور ملک کو صحیح سمت چلانے کے لیے اہم فیصلے کیا کرتے ہیں۔ اب تو جرمنی میں جمہوریت روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔

21 مارچ 1871 ء میں جب برلن کے رائشٹاگ میں پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا اُس وقت وسیع تر اختیارات کی حامل ایک عوامی نمائندہ جماعت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا۔ سیاسی طاقت دراصل دیگر عناصر کے ہاتھوں میں تھی۔ یعنی قیصر ولہلم اول جو پروشیا کے بادشاہ بھی تھے وہ اور انہوں نے جنہیں چانسلر مقرر کیا تھا ' اوٹو فون بسمارک‘، یہ دونوں  دراصل سیاسی اختیارات کا سر چشمہ تھے۔

Berlin - Wahlrechtsspaziergang
یہ تصویر مارچ 1910 کی ہے۔ برلن میں رائشٹاگ کی عمارت کے سامنے حق رائے دہی کے حقوق کے ضوابط کے خلاف عوامی احتجاج۔تصویر: ullstein

سلطنت جرمنی کا قیام

جب 18 جنوری 1871 ء میں جرمن سلطنت کا قیام عمل میں آیا، اُس وقت ولہلم دوم کو شہنشاہ بنایا گیا اور اوٹو فون بسمارک پہلی جرمن قومی ریاست کے سیاسی امور کے ذمہ دار یعنی چانسلر بنے تھے۔

جرمنی: ’نازی سیلوٹ‘ کرنے پر دو چینی سیاح گرفتار

بنیادی طور پر بسمارک کے تیار کردہ 'شاہی دستور‘ نے شاہی عمل کو دور رس استحقاق سے نوازا: دفاعی ، خارجہ پالیسی  میں شاہی انتظامیہ بڑی حد تک پارلیمنٹ کے اثر و رسوخ سے بالاتر رہی اور سب سے بڑھ کر ، حکومت پر گرفت مکمل طور پر شہنشاہ کے اعتماد  کے ساتھ ممکن تھا ، پارلیمنٹ میں اکثریت کے ووٹ سے  نہیں ۔

جمہوریت کی مشق

تمام اختیارات کے باوجود بادشاہ ولہلم دوم اور شاہی چانسلر کے لیے حکومت کرنا آسان نہ تھا۔ جرمن شہر ڈُسلڈورف کی ہائنرش ہائنے یونیورسٹی کے تاریخ دان کرسٹوف نون کے بقول،'' پروشیا میں 1850ء سے ایک پارلیمان موجود تھی لیکن وہ ایسا کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔‘‘

Berlin DHM Festakt 200. Geburtstags von Otto von Bismarck
2015 ء میں اوٹو فون بسمارک کی 200 ویں سالگرہ کی ایک تقریب برلن کے تاریخی میوزیم میں۔تصویر: picture-alliance/dpa/B. Pedersen

اس کا ایک اور ثبوت 1848ء اور 1849ء کا جرمن انقلاب بھی تھا جو جرمنی کے وفاقی نظام کو جمہوری بنانے کی کوشش تھی۔ یہ بھی ایک واضح سگنل تھا اس امر کا کہ عوامی شمولیت کے بغیر سیاست کبھی نہیں چل سکتی۔

روس میں جرمن پارلیمانی عمارت کی نقل، وجہ ’روسی قبضے کی مشق‘

جرمن مُورخ نون کے مطابق،'' رائشٹاگ دراصل سیاست میں عوامی شمولیت کا تاثر دینے کے لیے ایک لبادے کی حیثیت رکھتا تھا۔‘‘ بہر حال پارلیمان میں قانون سازوں کو قوانین کے بارے میں اور بجٹ کے معاملات میں اپنی رائے دینے کا حق تھا۔‘‘

   بورژوا کی زیادہ طاقت 

رائشٹاگ کی طاقت یا اختیارات شروع میں فیڈرل کونسل یا ایوان بالا نے محدود کر رکھی تھی۔ پارلیمان کیساتھ ساتھ قوانین کے فیصلے ایوان بالا کیا کرتی تھی۔ اس بات کے خطرات بھی محسوس کر لیے گئے کہ شہنشاہ پارلیمانی حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے فیڈرل کونسل یا ایوان بالا کے اتفاق سے اُسے تحلیل بھی کر سکتے ہیں۔

جرمنی میں تاہم معاشی اور معاشرتی ترقی نے سیاست میں عوامی شمولیت کو فروغ دیا۔

نازی دور ميں نوآبادياتی بچوں کی نس بندی کی داستان

''مزدوروں کی بڑے پیمانے پر نقل و حرکت سے صنعتی نظام میں صدیوں سے چلی آ رہی دیہی اشرافیہ کو کمزور کیا اور نئی صنعتی بورژوا اشرافیہ کو تقویت ملی۔ اس کی وجہ سے عوام میں زیادہ سے زیادہ خود اعتمادی آئی اور یہ اپنی سیاسی جماعتوں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ کا مطالبہ کرنے لگے۔‘‘ یہ کہنا ہے جرمن تاریخ دان  کرسٹوف نون کا۔

رالف بوزن/ ک م/ ع ح