جرمنی: ’نازی سیلوٹ‘ کرنے پر دو چینی سیاح گرفتار
6 اگست 2017جرمنی میں نازیوں کی طرح سیلوٹ کرنے سمیت نازی دور کی کسی بھی علامت کا استعمال قابل سزا جرم ہے اور ان دونوں چینی سیاحوں کو اس جرم کا ارتکاب کرنے پر مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نئی کشیدگی کا نتیجہ: جرمنی کا ترکی کے خلاف اقدامات کا اعلان
ہٹلر کو فلم ’کنگ کانگ‘ کیوں پسند تھی؟ نئی کتاب
ہفتے کی شام برلن پولیس کی خاتون ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ دونوں چینی باشندوں کو پانچ سو یورو مالیت کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔
قبل ازیں ان دونوں سیاحوں کو، جن کی عمریں 36 اور 49 برس بتائی گئی ہیں، جرمن پولیس نے برلن کی تاریخی عمارت ’رائش ٹاگ‘ کے سامنے سے حراست میں لے لیا تھا۔ ہفتے کی صبح اس تاریخی عمارت پر تعینات ایک سکیورٹی گارڈ نے ان دونوں افراد کو ’نازیوں جیسا سیلوٹ‘ کرتے ہوئے موبائل فون کے ذریعے تصاویر بناتے ہوئے دیکھا تھا۔
سکیورٹی گارڈ نے مقامی پولیس کو اطلاع کر دی جس کے بعد دونوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس کے مطابق اب جرمنی میں چھٹیاں منانے کے لیے آئے ان دونوں چینی شہریوں کو ’ممنوعہ تنظیم کی علامات‘ استعمال کرنے کے مقدمے کا سامنا ہے۔
جرمن قوانین کے مطابق اس جرم میں تین برس قید، جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ مقامی پولیس کی خاتون ترجمان کا تاہم کہنا تھا کہ دونوں سیاح تحقیقات کے دوران جرمنی چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ پولیس کے مطابق اس مقدمے میں اگر انہیں جرمانے کی سزا سنائی گئی تو ممکنہ طور پر زر ضمانت کافی ہو گا۔
جدید جرمنی میں نازی جماعت پر پابندی عائد ہے اور اس پارٹی کے زیر استعمال رہنے والی تمام تر علامات کے استعمال کی اجازت صرف تدریسی یا تحقیقی مقاصد کے لیے ہی دی جاتی ہے۔ جرمنی میں اب بھی سواستکا اور دیگر نازی دور کی علامات کو نہ صرف فلموں بلکہ ویڈیو گیمز سے بھی سنسر کر دیا جاتا ہے۔
رائش ٹاگ کی عمارت بھی جرمن تاریخ کے اُس تاریک دور میں کئی تلخ واقعات کا مرکز رہی ہے۔ سن 1933 میں اس عمارت کو آگ لگا دیے جانے کے بعد ہٹلر کی حکومت نے اس کا الزام کمیونسٹوں پر عائد کرتے ہوئے تمام ’ریاست دشمن‘ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نازیوں نے خود ہی رائش ٹاگ کو آگ لگائی تھی اور پھر اس واقعے کو نازی مخالف لوگوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔