ہٹلر کو فلم ’کنگ کانگ‘ کیوں پسند تھی؟ نئی کتاب
17 اکتوبر 2016فرینکفرٹ میں منعقد ہونے والا سالانہ کتاب میلہ دنیا بھر میں کتابوں کی صنعت کی سب سے بڑی عالمی نمائش ہوتا ہے، جس میں ہر سال بیسیوں ملکوں سے ہزار ہا پبلشر اپنی لاکھوں کتابوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ اس میلے میں ہر سال مصنفین، ناشرین، تقسیم کاروں اور مترجمین کے مابین بہت سے بیش قیمت معاہدے بھی طے پاتے ہیں۔
اس سال جرمن صوبے ہیسے کے سب سے بڑے شہر اور جرمنی کے مالیاتی مرکز فرینکفرٹ میں اس بین الاقوامی کتاب میلے کا اہتمام اس مہینے کی 19 سے لے کر 23 تاریخ تک کیا جائے گا، جس میں فن و ادب، سائنس اور بین الاقوامی تعلقات سے لے کر کھانے پکانے کی ترکیبوں اور عام صارفین کے لیے مشوروں تک پر مشتمل لاکھوں کتابوں کی نمائش کی جائے گی۔
اس سال کے فرینکفرٹ بک فیئر میں دیگر شعبوں کے علاوہ سینما اور اس کی تاریخ سے متعلق بھی بہت سی نئی کتابیں پہلی بار نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ ان میں سے سب سے قابل ذکر نئی کتاب نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر اور دیگر نازی رہنماؤں کی پسندیدہ فلموں کے بارے میں ہے۔
اس کتاب کا عنوان ہے: ’ہٹلر کو ’کنگ کانگ‘ کیوں پسند تھی اور نازی دور میں مکی ماؤس کو جرمنوں کے لیے ممنوع کیوں قرار دیا گیا تھا؟‘ اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے یوآخم کیورٹن نے اپنے ایک مراسلے میں لکھا ہے کہ ہٹلر کے جرنیل، ہٹلر دور کی اہم خواتین اور اس نازی رہنما کے سرکردہ مددگاروں کے بارے میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران کافی زیادہ تحقیق دیکھنے میں نہیں آئی۔
یوآخم کیورٹن کے مطابق ہٹلر دور میں سینما ایک ایسا موضوع ہے، جس پر مؤرخین نے آج تک زیادہ کام نہیں کیا۔ اب اس پہلو سے فولکر کوپ نامی مصنف نے ایک بہت جامع کتاب لکھی ہے، جس کا مکمل ٹائٹل ہے: ’ہٹلر کو ’کنگ کانگ‘ کیوں پسند کیوں تھی اور مکی ماؤس کو جرمنوں کے لیے ممنوع قرار کیوں دیا؟ ... نازی اشرافیہ کی خفیہ پسندیدہ فلمیں۔‘
اس کتاب سے قاری کو پتہ چلتا ہے کہ ایک نئے میڈیم کے طور پر ہٹلر فلم سے کتنا متاثر تھا اور اپنے ابتدائی برسوں سے لے کر دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے پہلے امن کے آخری دن تک اسے نئی فلمیں دیکھنے کا کتنا شوق تھا۔
اس کتاب کے مطابق، ’’ہٹلر کی پسندیدہ ترین فلموں میں سے ایک ’کنگ کانگ‘ بھی تھی، جس میں ایک بہت ہی عظیم الجثہ بن مانس ایک ایسی خاتون کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے، جو اپنی جسامت میں اس کی ایک بالشت کے برابر ہوتی ہے لیکن جس کا عشق کنگ کانگ کو تقریباﹰ دیوانہ بنا دیتا ہے۔‘‘
فولکر کوپ لکھتے ہیں کہ ہٹلر کے ایک سابق قریبی معتمد ایرنسٹ ہانف شٹینگل کے مطابق اس نازی رہنما کو ہالی وُڈ کی فلمیں بہت پسند تھیں اور وہ انہیں اپنے نجی سینما گھر میں دیکھا کرتا تھا، خاص طور پر وہ فلمیں بھی، جن کا دیکھنا ہٹلر نے عام جرمنوں کے لیے یہ کہہ کر ممنوع قرار دے رکھا تھا کہ وہ جرمن ثقافتی میراث کا حصہ نہیں تھیں۔
256 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے مصنف فولکر کوپ ہٹلر کے اس رویے کو اس کے دوہرے اخلاقی معیارات کی بہت بڑی مثالوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔
ہٹلر کو والٹ ڈزنی اسٹوڈیوز کی تیار کردہ مکی ماؤس کے کردار والی فلمیں بھی بہت پسند تھیں، حالانکہ تب عام جرمنوں کے لیے انہیں دیکھنے پر پابندی عائد تھی۔ ہٹلر کو اس کے قریبی ساتھی بھی ہالی وُڈ کی ایسی فلمیں تحفے میں پیش کیا کرتے تھے۔
ہٹلر دور کے پراپیگنڈا وزیر جوزف گوئبلز نے ایک بار اس نازی رہنما کی سالگرہ کے موقع پر کہا تھا، ’’میں اپنے ’فیوہرر‘ (قائد) کو ان کی سالگرہ پر گزشتہ چار برسوں کے دوران بننے والی 30 کلاسیک فلمیں اور 18 مکی ماؤس فلمیں تحفے میں پیش کرتا ہوں۔ وہ اس پر بہت خوش ہیں کہ انہیں یہ ’خزانہ‘ ملا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ فلمیں ان کے لیے اچھی تفریح کا سبب بنیں گی اور وہ خود کو تازہ دم محسوس کریں گے۔‘‘