’چوبیس ہفتے‘: ایک حساس موضوع پر جذباتی جرمن فلم سینماؤں میں
22 ستمبر 2016نوجوان جرمن ہدایتکارہ آنا زہرہ بالراشد نے، جن کے والد کا تعلق الجزائر سے ہے، یہ فلم یونیورسٹی میں فلم کے شعبے میں اپنی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل پر اختتامی فلم کے طور پر بنائی ہے۔ برلن فلمی میلے میں اس فلم نے ناظرین کو جذباتی طور پر ہلا کر رکھ دیا تھا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ ’کمزور اعصاب کے حامل افراد کے لیے نہیں‘ ہے۔
فلم ’چوبیس ہفتے‘ کی کہانی ایک نوجوان جوڑے کے بارے میں ہے، جسے معمول کے ایک طبی معائنے کےدوران پتہ چلتا ہے کہ اُن کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ ڈاؤن سنڈروم یعنی ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہے، جس میں بچے دماغی خلل کا شکار ہوتے ہیں۔ اس جوڑے کی پہلے سے ایک بیٹی ہوتی ہے اور وہ اپنے آنے والے بچے کے حوالے سے بہت خوش ہوتا ہے لیکن یہ تشخیص دونوں کی دنیا کو تہ و بالا کر کے رکھ دیتی ہے۔
شروع شروع میں یہ جوڑا حمل گرانے کی مخالفت کرتے ہوئے اس بچے کو ہر صورت میں دنیا میں لانے کا فیصلہ کرتا ہے تاہم اگلے ہی معائنے میں پتہ چلتا ہے کہ بچے کے دل میں کئی ایسے نقائص ہیں، جن کی وجہ سے پیدائش کے فوراً بعد کئی آپریشن کرنا پڑیں گے۔
اس فلم کی کہانی اسی سوال کے اردگرد بُنی گئی ہے کہ آیا اس جوڑے کو یہ معذور بچہ پیدا کرنا چاہیے یا اسقاطِ حمل کروا لینا چاہیے۔ گویا ماں اور باپ کو اپنے ہونے والے بچے کی زندگی یا موت کا انتہائی مشکل فیصلہ کرنا ہے۔
جرمنی میں بارہ ہفتوں کے بعد اَسقاطِ حمل کی اجازت محض مخصوص حالات میں ہی دی جاتی ہے۔ اس فلم کے لیے چونتیس سالہ ہدایتکارہ آنا زہرہ بالراشد نے مہینوں تحقیق کی اور ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ کئی متاثرہ افراد کے انٹرویوز بھی کیے۔
یہ فلم اس لیے بھی متاثر کرتی ہے کہ اس میں ڈاکٹروں کے کردار میں اداکار نہیں بلکہ اصل ڈاکٹرز نظر آتے ہیں اور یوں یہ فلم حقیقت اور فِکشن کا ایک خوبصورت امتزاج بن گئی ہے۔ یہ فلم کچھ اس طرح سے فلم بین کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ گویا اس بچے کو لینے یا نہ لینے کا فیصلہ فلم میں دکھائے گئے جوڑے کو نہیں بلکہ خود اُسے کرنا ہے۔ ایسے میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو گا، جو اس فلم کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہو گا۔
آج کل لائپسگ اور برلن میں مقیم بالراشد کا اوڑھنا بچھونا فلمیں ہی ہیں۔