پاکستان بھر میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی
1 اکتوبر 2016ویسے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان اُڑی کے بھارتی فوجی ہیڈکوارٹر پر حملے کے بعد سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں پہلے ہی کئی ایک سینماگھروں نے بھارتی فلموں کی نمائش روک دی تھی تاہم ’پاکستان فلم ایگزیبٹرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز‘ کی طرف سے اس ضمن میں باقاعدہ فیصلے کا اعلان جمعہ تیس ستمبر کو دیر گئے کیا گیا۔
اس سے پہلے بھارتی موشن پکچرز پروڈیوسرز ایسوسی ایشن (IMPPA) نے پاکستانی اداکاروں اور فنکاروں کے ساتھ ساتھ پاکستانی ٹیکنیشنز کے لیے بھی بالی وُڈ کے فلم سیٹس پر کام کرنے کی پابندی عائد کر دی تھی۔
پاکستانی فنکاروں اور پاکستانی فوج کے ساتھ بھی یک جہتی کے اظہار کے طور پر ’پاکستان فلم ایگزیبٹرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز‘ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے:’’یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ فلم کے کاروبار سے متعلقہ بھارتی تنظیم (IMPPA) نے پاکستانی ستاروں اور تکنیک کاروں پر بھارت میں کام کرنے کی پابندی عائد کرنے کی قرارداد پاس کی ہے۔ اس بھارتی تنظیم کے اس فیصلے کے تناظر میں پاکستانی فلمی صنعت کے اہم کرتا دھرتا اداروں نے اُس وقت تک کے لیے تمام بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے، جب تک کہ حالات معمول پر نہیں آ جاتے۔‘‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سینما گھروں کے ملازمین اب بھارتی فلموں کے بڑے بڑے پوسٹرز کو ہٹا رہے ہیں اور اُن کی جگہ ہالی وُڈ کی فلموں کے یا پھر پاکستانی فلموں کے پوسٹرز لگا رہے ہیں۔
دیگر ذرائع کے مطابق پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کا یہ فیصلہ ابھی ’پاکستان فلم ایگزیبٹرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز‘ کی طرف سے ہی سامنے آیا ہے جبکہ خود حکومتِ پاکستان کی جانب سے ابھی اس ضمن میں کوئی باقاعدہ اعلان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
خود پاکستانی فلمی صنعت ایک عرصے تک زبوں حالی کا شکار رہنے کے بعد اب رفتہ رفتہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے بڑے شہروں کے سینما گھروں میں زیادہ تر بھارتی فلمیں ہی نمائش کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے راحت فتح علی خاں، علی ظفر، فواد خان اور ماہرہ خان سمیت بہت سے پاکستانی گلوکار اور اداکار بھارت کی فلمی صنعت میں بے حد مصروف ہیں جبکہ نصیر الدین شاہ اور اوم پوری سمیت کئی ایک بھارتی اداکار بھی پاکستانی فلموں میں جلوہ گر ہو چکے ہیں۔ اس چیز کو پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان روابط کو بہتر بنانے کے سلسلے کی بھی ایک کڑی قرار دیا جاتا رہا ہے۔