روسی عسکری مداخلت سے شام کی صورتحال پیچیدہ ہوتی ہوئی
8 اکتوبر 2015روسی جنگی طیاروں نے شام میں اپنی عسکری کارروائی کا دائرہ ڈرامائی طور پر وسیع کر دیا ہے۔ اس تناظر میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ ژینس اسٹولٹن برگ نے جمعرات کے دن کہا کہ شام کی صورتحال ’پریشان کن حد تک تناؤ‘ کا باعث بن رہی ہے۔
برسلز میں اس عسکری اتحاد کی ایک اہم میٹنگ میں شرکت سے قبل اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا، ’’روسی عسکری مداخلت کے باعث شام میں صورتحال مزید تناؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ اس نتیجے میں وہاں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس اتحاد کی سکیورٹی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے۔‘‘
اسٹولٹن برگ نے روسی جنگی طیاروں کی طرف سے ترک فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کے موجودہ بحران میں نیٹو اپنے تمام رکن ممالک کی مکمل سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر مکن قدم اٹھائے گا۔ ترکی بھی مغربی عسکری اتحاد نیٹو کا رکن ملک ہے۔
روس نے گزشتہ بدھ سے شام میں عسکری کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ وہ وہاں صرف انتہا پسند گروپ داعش اور دیگر جہادی گروہوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ تاہم ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ روسی جنگی طیارے کچھ ایسے باغیوں کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں، جو نہ صرف بشار الاسد بلکہ جہادیوں کے خلاف بھی سرگرم ہیں۔ روسی فضائیہ کی بمباری کی زد میں ایسے باغی بھی آئے ہیں، جو امریکی عسکری ماہرین سے خصوصی تربیت حاصل کرنے کے بعد شام میں لڑنے گئے ہیں۔
نو فلائی زون کے قیام پر فیصلہ نہیں ہوا، واشنگٹن
اس صورتحال میں امریکا پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ روس سے مطالبہ کرے کہ اس کی فوجیں صرف جہادیوں کے خلاف ہی کارروائی پر اکتفا کریں۔ ایسی خبریں بھی موصول ہوئیں کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری شام میں نو فلائی زون کے قیام کے حوالے سے سفارتکاری کر رہے ہیں۔ تاہم وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جان کیری نے شام میں نو فلائی زون قائم کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا تاہم امریکی صدر باراک اوباما نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ اس نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی صدر نے کہا ہے کہ شام میں قیام امن کے لیے ایسا سفارتی راستہ اختیار کرنا چاہیے، جس میں شامی صدر بشار الاسد کے لیے کوئی کردار نہ ہو۔
امریکی صدر اوباما کا اصرار ہے کہ شام میں قیام امن کے لیے بشار الاسد کا اقتدار سے الگ ہونا ناگزیر ہے جبکہ روس کا کہنا ہے کہ شام میں فعال جہادیوں سے نمٹنے کے لیے اسد کے بغیر مؤثر کارروائی ناممکن ہے۔ اسی لیے ماسکو حکومت نہ صرف شامی افواج کو اسلحہ فراہم کر رہی ہے بلکہ شامی افواج کو تربیت بھی دے رہی ہے۔
مبصرین کے مطابق اب شام میں براہ راست روسی مداخلت سے یہ تنازعہ مزید پیچیدہ اور طویل ہو جائے گا۔ گزشتہ چار برس سے جاری اس بحران کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے مطابق دو لاکھ چالیس ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔