روسی یوکرینی جنگ کا ایک سال: قیام امن کب تک اور کیسے ممکن؟
24 فروری 2023روسی یوکرینی جنگ میں اب تک اطراف کے ہزارہا فوجی مارے جا چکے ہیں جبکہ شہری ہلاکتوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بنتی ہے۔ اس کے علاوہ لاتعداد شہر تباہ ہو چکے ہیں اور یہی جنگ دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں افراط زر اور بھوک میں اضافے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر توانائی کے ذرائع کی کمی کا سبب بھی بن چکی ہے۔ یہ ہے اس جنگ کے ایک سال کا میزانیہ۔
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن ابھی تک اپنے اس عسکری ہدف میں کامیاب نہیں ہوئے، جس کے تحت وہ پورے یوکرین پر قبضہ کر لینا چاہتے تھے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ روس یوکرین کے مجموعی ریاست علاقے کے تقریباﹰ پانچویں حصے پر تو قبضہ کر ہی چکا ہے۔
عسکری حوالے سے غیر فیصلہ کن تسلسل
روس اور یوکرین کی جنگ میں صورت حال گزشتہ کئی ماہ سے ایسی ہے کہ اس میں فوجی حوالے سے کوئی بڑی یا فیصلہ کن پیش رفت نہیں ہو رہی۔ یوکرینی فوج نے گزشتہ برس اپنے ملک کے کئی علاقے روسی دستوں کے قبضے سے آزاد کرا لیے تھے۔ لیکن اس کے بعد سے حالات زیادہ تر جمود کا شکار ہیں۔ روسی فوج اب یوکرین میں یا تو نئے اور بڑے مسلح حملے شروع کر رہی ہے یا پھر یوکرین کے مشرق اور جنوب کے جنگی محاذوں پر اپنے قدم مضبوط بنانے کی کوشش میں ہے۔
روس نواز چیچن رہنما قدیروف کا کرائے کی فوج تیار کرنے کا منصوبہ
ان حالات میں دونوں جنگی دھڑوں میں سے کوئی بھی ایسا کوئی واضح اشارہ نہیں دے رہا کہ وہ اس جنگ کے خاتمے اور امن مذاکرات پر آمادہ ہے۔ روس کا خیال ہے کہ طویل المدتی بنیادوں پر دیکھا جائے تو وہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ اس کے برعکس یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی بار بار کہہ چکے ہیں کہ کییف حکومت کے دستے ماضی میں زبردستی روس میں شامل کیے گئے یوکرینی جزیرہ نما کریمیا سمیت تمام مقبوضہ علاقوے خالی کرا کر ہی چین سے بیٹھیں گے۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس: یوکرین کے لیے مدد جاری رہے گی، جرمن چانسلر
جہاں تک مغربی دنیا میں یوکرین کے عسکری اور سیاسی حمایتی ممالک کا تعلق ہے، تو ان کی سوچ یہ ہے کہ یہ فیصلہ صرف خود یوکرین ہی کو کرنا چاہیے کہ وہ امن بات چیت کب شروع کرنا چاہے گا۔
ایک نئی عالمی جنگ کا خوف
یوکرین کی مدد کرنے والے اور خاص طور پر جرمنی جیسے مغربی ممالک پر یہ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے امن بات چیت شروع کی جانا چاہیے۔ جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کی طرف سے نو فروری کے روز مکمل کرائے گئے ملک میں یوکرینی جنگ سے متعلق عوامی رجحانات کے ایک جائزے کے مطابق 58 فیصد جرمن رائے دہندگان نے کہا کہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے کافی سفارتی کوششیں نہیں کی جا رہیں۔ جرمنی میں اس جنگ سے متعلق اتنی بڑی تعداد میں ایسی عوامی رائے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
جرمنی کی لیفٹ پارٹی کی خاتون سیاستدان سارا واگن کنیشت اور خواتین کے حقوق کی معروف کارکن ایلیس شوارس نے ایک درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ جرمنی کو یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر روکتے ہوئے یہ پوزیشن اپنانا چاہیے کیہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے فی الفور امن مذاکرات شروع کیے جائیں۔
فیکٹ چیک: یوکرینی مہاجرین کے بارے میں جھوٹی کہانیاں کیسے پھیلائی جاتی ہیں؟
ان دونوں خواتین نے ایک نئی عالمی جنگ کے خلاف خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے، ''یوکرین مغربی دنیا کی مدد سے اس جنگ میں چند لڑائیاں تو جیت سکتا ہے تاہم کییف دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت کے خلاف مجموعی طور پر یہ جنگ جیت نہیں سکتا۔‘‘ اس درخواست پر جرمنی کے دیگر بہت سے فنکاروں، مذہبی امور کے ماہرین اور سیاستدانوں نے بھی دستخط کیے ہیں۔
جرمنی میں یوکرینی سفیر کا موقف
برلن میں تعینات یوکرینی سفیر اولیکسی ماکےییف اس کے برعکس کہتے ہیں کہ وہ مغربی دنیا میں پائے جانے والے اس خوف کو سمجھنے سے قاصر ہیں، جس کے تحت یوکرین کی موجودہ جنگ وسیع تر ہو کر تیسری عالمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں، ''یوکرین تو اس وقت تیسری عالمی جنگ کے عین وسط میں کھڑا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ روس ہمارے خلاف ایک ایسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، جس کی مدد سے وہ ہمیں پوری طرح تباہ کر دینا چاہتا ہے۔‘‘
نیٹو کے سربراہ کی سوچ
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے گزشتہ برس موسم خزاں میں ہی ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہہ دیا تھا کہ اس جنگ میں یکطرفہ قیام امن کے لیے کسی بھی طرح کے اقدامات کا سوچنا غلط ہو گا۔ تب اسٹولٹن برگ نے کہا تھا، ''اگر یوکرین نے یکطرفہ طور پر لڑائی بند کر دی، تو ایک آزاد ریاست کے طور پر اس کا وجود ختم ہو جائے گا۔ اس لیے یوکرین کو یہ جنگ جیتنا ہی ہو گی۔‘‘
فرار یا مقابل: روسی نوجوان مخمصے کا شکار
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یوکرین ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھ سکے، مغربی ممالک کییف حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی میں مسلسل اضافہ کرتے رہے ہیں۔ سال رواں کے اوائل میں کافی زیادہ ہچکچاہٹ کے بعد جرمن چانسلر اولاف شولس کی حکومت نے بھی بالآخر اس بات کی منظوری دے دی تھی کہ یوکرین کو جرمن جنگی ٹینک مہیا کیے جائیں۔ چانسلر شولس نے ایسا امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک کی طرف سے بھی کییف کے لیے جنگی ٹینکوں کی فراہمی کے وعدوں کے بعد کیا تھا۔
دو ممکنہ جنگی منظر نامے
وفاقی جرمن فوج کے سابق سربراہ ہیلموٹ گانزر نے رواں ماہ کے اوائل میں 'جرنل فار انٹرنیشنل پولیٹکس اینڈ سوسائٹی‘ میں اپنے ایک مضمون میں مغربی ممالک کی طرف سے مہیا کردہ جنگی ٹینکوں کے بعد پیدا ہونے والے دو ممکنہ عسکری منظر ناموں کی پیش گوئی کی تھی۔
قدرے کم امیدی کے مظہر ان ممکنہ عسکری منظر ناموں میں جنرل ریٹائرڈ ہیلموٹ گانزر نے لکھا تھا، ''اس طرح مغربی ممالک میں رائے عامہ کو اس بات کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا کہ بمباری سے تباہ شدہ جرمنی کے لیوپارڈ ٹینکوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر گردش کرنے لگیں گی۔‘‘
جہاں تک روسی صدر پوٹن کا تعلق ہے، تو انہوں نے دو فروری کے روز دوسری عالمی جنگ کے دوران سٹالن گراڈ کی لڑائی کے 80 برس پورے ہونے کے موقع پر اُس جنگ کا یوکرین کی جنگ سے موازنہ کر بھی دیا تھا۔
زیلنسکی یورپ کے دورے پر، اتحادیوں کا مدد جاری رکھنے کا عزم
اس تناظر میں وفاقی جرمن فوج کے ریٹائرڈ جنرل گانزر نے لکھا، ''قدرے امید پسندانہ منظر نامہ یہ ہو گا کہ یوکرین کو دیے جانے والے جنگی ٹینک آگے بڑھتے ہوئے کریمیا کے نزدیک سمندری علاقے کے ساحلوں تک پہنچ جائیں۔ لیکن یہ دراصل زیادہ خطرناک پیش رفت ہو گی۔
ہیلموٹ گانزر کے الفاظ میں، ''ایسی صورت میں روسی صدر پوٹن اس جنگ کا دائرہ پھیلاتے ہوئے اسے یوکرین کے حامی مغربی ممالک کے ریاستی علاقوں تک لے جائیں گے اور یہ صورت حال پورے یورپ کے لیے انتہائی تباہ کن پیش رفت ثابت ہو گی۔‘‘
سرخ لکیر کہاں ہے؟
یہ سوال کہ بڑھتا ہوا فوجی دباؤ روس کو مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرنے پر مجبور کر دے گا یا ایک نئی عالمی جوہری جنگ کا خطرہ بڑھا دے گا، اس سوال کا جواب ہاں میں بھی دیا جاتا ہے اور نفی میں بھی۔
جرمنی کے سوشل ڈیموکریٹ چانسلر اولاف شولس کئی مرتبہ زور دے کر کہہ چکے ہیں کہ جرمنی کسی بھی طور جنگی فریق نہیں بنے گا۔ اسی لیے انہوں نے کییف حکومت کو جرمن جنگی ٹینک دینے کا فیصلہ بڑی تاخیر اور سوچ سمجھ سے کیا۔
روسی فوجی مداخلت سے تیرہ ملین یوکرینی بے گھر، اقوام متحدہ
اس کے برعکس جرمن اپوزیشن پارٹی سی ڈی یو کے ایک رہنما روڈیرش کیزے ویٹر کہتے ہیں، ''جہاں تک یوکرین کو ہتھیاروں کے نظام مہیا کرنے کی بات ہے، تو کہیں بھی کوئی بھی سرخ لکیر نہیں کھینچی جانا چاہیے۔ اس لیے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کوئی بھی ملک کسی بھی جنگ میں فریق صرف اس وقت بنتا ہے، جب وہ اس جنگ میں اپنے فوجی بھیجے۔‘‘
فوجی فتح یا مصالحت کےنتیجے میں امن
یوکرین کی جنگ کے ممکنہ خاتمے کے لیے ایک کلیدی لفظ 'مصالحت‘ یا 'سمجھوتہ‘ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہی لفظ اب تک کھل کر یا درپردہ نہ تو ماسکو سے سننے میں آ رہا ہے اور نہ ہی کییف سے۔ جرمن شہر ہالے کی یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات یوہانیس واروِک کہتے ہیں کہ کسی مصالحت کے بغیر بات آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔
یوکرین کا مستقبل یورپی یونین میں ہے، یورپی رہنما
یوہانیس واروِک کہتے ہیں، ''جہاں تک یوکرین کی نیٹو میں ممکنہ شمولیت کی بات ہے، تو اس جنگ کا نتیجہ آخرکار غالباﹰ یہی ہو گا کہ یوکرین غیر جانبدار ہو جائے گا۔ یعنی وہ نہ تو روس کے زیر اثر ہو گا اور نہ ہی مغربی دنیا کے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس جنگ کے مزید کافی عرصے تک جاری رہنے کے بعد بھی یہی نتیجہ نکلنا ہے، جو اب بھی ممکن ہے، تو پھر اس جنگ کو مزید جاری رکھنا اور مزید ہزاروں انسانوں کی موت کی وجہ بننا کوئی منطقی رویہ نہیہں ہو گا۔‘‘
روسی یوکرینی جنگ سے متعلق دو طرح کی سوچ پائی جاتی ہے: کیا تنازعے کا حل روس کے خلاف فوجی فتح ہی ہو سکتی ہے یا یوکرین اور اس کی حامی مغربی دنیا کو کوئی مصالحتی حل تلاش کرنا چاہیے؟ روسی یوکرینی جنگ کو ایک سال ہو گیا ہے۔ اب تک نہ یہ جنگ ختم ہوئی ہے اور نہ ہی اس بارے میں بحث کہ اس جنگ کے خاتمے کا سبب بننے والا کون سا امکان بہتر ہو گا؟
م م / ع ت (کرسٹوف ہاسل باخ)