روس، شام اور ایران: کیا یورپی پابندیوں کا کوئی فائدہ بھی ہے؟
26 جولائی 2017ڈوئچے ویلے ( ڈی ڈبلیو) نے اپنی اس رپورٹ میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ یورپی یونین میں پابندیوں کے حوالے سے فیصلہ سازی کس طرح سے ہوتی ہے اور حالیہ برسوں میں لگائی جانے والے پابندیاں کس قدر کارگر ثابت ہوئی ہیں۔ پابندیاں یا سخت اقدامات یورپی یونین کا ایک ایسے ہتھیار ہے، جسے وہ مشترکہ خارجہ امور اور سلامتی کی پالیسی سے متعلق مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ان مشترکہ اہداف میں امن، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری جیسے معاملات شامل ہیں۔ یہ پابندیاں اپنی نوعیت کے اعتبار سے تادیبی نہیں ہوتیں تاہم ان کا مقصد پالیسی یا سرگرمی میں تبدیلی لانے کے لیے زور ڈالنا ہوتا ہے۔
پابندیاں کن پر لگتی ہیں؟
*ایسے ممالک کی حکومتوں پر، جن کی پالیسیاں یورپی معیارات کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
*ایسے ادارے یا متعلقہ محکمے جو اس طرح کی پالیسی سازی میں مدد کرتے ہیں۔
* تنظیمیں، جیسے دہشت گرد گروہ۔
* مخصوص شخصیات، جو ایسی پالیسیوں کے علاوہ دہشت گردانہ یا ممنوعہ سرگرمیوں میں شامل ہوں۔
امریکا اور یورپی یونین نے روس پر نئی پابندیاں لگا دیں
اقتصادی پابندیاں، روس کو سالانہ چالیس بلین ڈالر کا نقصان
را پورتیلا کے مطابق پابندیوں کے نفاذ سے اکثر غیر حقیقی نتائج کی توقع کی جاتی ہے، ’’پابندیاں ایسی تجارتی بندش نہیں ہوتیں کہ جن کے اثرات راتوں رات سامنے آجائیں۔‘‘ پورتیلا کہتی ہیں کہ جامع انداز میں لگائی گئی پابندیوں کا اثر چند ماہ میں سامنے آتا ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ ان سے انسانی بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بین الاقوامی رائے عامہ غصے میں تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے ایران، روس، لیبیا اور شام پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان ممالک کی متعدد تنظمیوں، شخصیات اور کاروباری ادارے ان پابندیوں کی زد میں آتے ہیں۔
پروفیسر کلارا پورتیلا کے بقول ایران پر پابندیوں کا اثر یہ ہوا کہ تہران حکومت مذاکرات کی میز پر واپس آ گئی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدہ کر لیا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ دوسری جانب یورپی یونین نے روس کی ڈیڑھ سو شخصیات کے اثاثے منجمد کرتے ہوئے ان کی سفری سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے۔ اس کا اثرات واضح طور پر روسی معیشت پر دکھائی دینے لگے ہیں۔