روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جرمن صدر
15 اپریل 2018خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے مقامی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر روس اور مغرب کے باہمی تعلقات میں بہتری کی خاطر نئی سفارتی کوششوں کے حق میں ہیں۔
روس نے ’اعصاب شکن مادہ‘ پوٹن کی نگرانی میں تیار کیا، برطانیہ
’سکرپل پر کیمیائی حملہ، حقائق سے پردہ اٹھنے میں وقت لگے گا‘
سفارت کاروں کی بے دخلیاں، پوٹن کے لیے ایک بحران، تبصرہ
شٹائن مائر نے اتوار کے دن جرمن روزنامے بلٹ ام زونٹاگ سے گفتگو میں کہا کہ سابق روسی ڈبل ایجنٹ سیرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی پر ہوئے کیمیکل حملے کے بعد مغرب اور روس کے مابین خراب ہو جانے والے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی جانا چاہیے۔ اس تناظر میں انہوں نے مزید کہا کہ وہ موجودہ صورتحال پر تحفظات رکھتے ہیں۔
اس اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں شٹائن مائر نے اس سفارتی بحران کے تناظر میں مزید کہا کہ روسی صدر پوٹن سے قطع نظر تمام روس اور روسی عوام کو ’دشمن‘ قرار نہیں دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سکرپل اور ان کی بیٹی پر حملہ پریشان کن ہے لیکن اس واقعے نے روس اور مغرب کے مابین جس نوعیت کی کشیدگی پیدا کر دی ہے، اس کے اس کیس سے ہٹ کر دوررس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور اس لیے اس معاملے پر تحفظات ایک یقینی امر ہے۔
شٹائن مائر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے پر دونوں فریقین میں اعتماد کا فقدان ہے، اس لیے اس تناظر میں کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کی خاطر ذمہ دارانہ سیاست کی ضرورت ہے اور یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔
سابق جرمن وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ جرمن حکومت نے روس کو بارہا باور کرایا ہے کہ اس کے اس طرح کے اعمال یورپی روسی تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سابق روسی جاسوس سیرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی ژولیا پر برطانیہ میں ہوئے کیمیکل حملے کی وجہ سے روس اور مغربی ممالک کے مابین ایک سنگین سفارتی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ مغربی ممالک اس حملے کا الزام روس پر عائد کرتے ہیں جبکہ ماسکو حکومت ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
ادھر روسی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ سکرپل اور ان کی بیٹی کو جس زہریلے کیمیکل سے حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا، وہ امریکا، برطانیہ یا کسی نیٹو رکن ملک میں تیار کیا گیا تھا۔
سیرگئی لاوروف نے کہا کہ انہیں خفیہ معلومات ملی ہیں، جس کے تحت سوئس لیب میں اس مواد کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ BZ کیمیکل روس یا سابق سوویت یونین میں تیار نہیں کیا گیا تھا۔ سوئس لیب نے روسی وزیر خارجہ کے اس بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے