روس کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں، امریکی وزیر خارجہ
2 اگست 2017ماسکو اور واشنگٹن میں بعض لوگوں کی طرف سے امید کی جا رہی تھی کہ سابق سرد جنگ کے دور کے ان دو روایتی حریفوں کے تعلقات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں بہتر ہوں گے۔ اس کی وجہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے لیے تعریقی کلمات بھی تھے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ صدر بننے کی صورت میں وہ روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائیں گے۔
تاہم دنیا کی یہ دو بڑی طاقتیں مختلف معاملات پر بدستور منقسم ہی ہیں اور رواں برس کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ مختلف عالمی معاملات پر اختلافات ہیں جن میں روس کی طرف سے یوکرائن میں مداخلت، امریکا کی طرف سے کریملن اور اس کے اتحادیوں کے خلاف پابندیاں اور ماسکو کی طرف سے شامی صدر بشارالاسد کی حمایت جیسے معاملات شامل ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن نے منگل یکم اگست کو اعتراف کیا کہ روس کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔ تاہم انہوں نے یہ ذمہ داری روس پر عائد کی کہ وہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے مناسب اقدامات کرے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن مسائل کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے۔ انہوں نے رواں برس مارچ میں کریملن کے دورے کے بعد کہا تھا کہ امریکا اور روس کے تعلقات ’’تاریخ کی کم ترین سطح‘‘ پر ہیں اور ان میں بہتری کے کم ہی امکانات ہیں۔
ریکس ٹلرسن نے ان خیالات کا اظہار کانگریس کی جانب سے روس پر عائد کی جانے والی نئی پابندیوں کی قرارداد کی منظوری کے بعد کیا ہے۔ کانگریس کی منظور شدہ قرارداد کی توثیق ابھی صدر ٹرمپ نے نہیں کی ہے۔ ٹِلرسن نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کانگریس کی طرف سے روس کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیاں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کی کوششوں میں ایک نئی رکاوٹ ثابت ہوں گی۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ماسکو کے خلاف نئی پابندیوں کے اس مسودے پر دستخط کر دیں گے۔