روہنگیا لڑکی اور بنگلہ دیشی مرد کی محبت کی کہانی، جوڑا روپوش
8 اکتوبر 2017شعیب حسین جوئل کی عمر پچیس برس ہے اور اُس کی روہنگیا مہاجرین سے تعلق رکھنے والی بیوی رافظہ اٹھارہ برس کی ہے۔ خیال ہے کہ دونوں شادی کے بعد سے روپوش ہیں اور مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہے ہیں۔ پولیس اُن کے تعاقب میں ہے۔
دولہے شعیب حسین کا تعلق سنگیر کے قصبے سے منسلک ایک گاؤں سے ہے۔ سنگیر نامی قصبہ ڈھاکا کے قریب واقع مانک گنج ضلع کا حصہ ہے۔
بنگلہ دیش میں دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ، ’منصوبہ خطرناک‘
روہنگيا مسلمان ميانمار واپسی کے حوالے سے تحفظات کا شکار
روہنگيا مسلمانوں کے ليے ايک در کُھل گيا
میانمار حکومت راکھین اسٹیٹ تک رسائی دے، امدادی ادارے
سنگیر ٹاؤن کی پولیس کے سربراہ خوندکر امام حسین نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس شادی کی اطلاع پولیس کو مل چکی ہے اور پولیس نے دولہے کے گاؤں چڑی گرام میں چھاپہ بھی مارا ہے لیکن ابھی تک دونوں کا سراغ نہیں مِلا ہے۔
پولیس اہلکار کے مطابق شعیب حسین کے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے پاس بھی اس جوڑے سے متعلق مکمل معلومات اور تفصیلات میسر نہیں ہیں۔ پولیس کا تفتیشی عمل جاری ہے۔
بنگلہ دیشی حکومت نے سن 2014 سے روہنگیا مہاجرین کی بنگلہ دیشی شہریوں کے ساتھ شادیوں پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ اس عمل کو خلاف قانون قرار دے رکھا ہے۔ ڈھاکا حکومت کا موقف ہے کہ ان شادیوں سے روہنگیا مہاجرین شہریت حاصل کرنے کے مستحق ہو جاتے ہیں۔
شہریت حاصل کرنے کے تناظر میں روپوش دولہے شعیب حسین کے والد بُلبُل حسین کا کہنا ہے کہ اس شادی میں شہریت حاصل کرنے کی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی رافظہ نامی روہنگیا لڑکی سے شادی کو جائز قرار دینے کے علاوہ اُس کا دفاع بھی کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایک بنگلہ دیشی مرد کسی مسیحی خاتون یا دوسرے مذہب کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے تو روہنگیا مہاجر کی بیٹی سے شادی کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔
بنگلہ دیشی دارالحکومت سے چھپنے والے ایک اخبار کے مطابق شعیب حسین ایک مذہبی مدرسے کا استاد ہے اور اُسے رافظہ سے محبت، اُس وقت ہوئی جب اس کا خاندان میانمار سے فرار ہو کر اُس کے قصبے سنگیر میں پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
بعد میں پولیس نے اس خاندان کو واپس کوکس بازار کے کیمپوں میں منتقل کر دیا تھا۔ شعیب حسین نے کیمپوں میں بہت تلاش کے بعد رافظہ کو ڈھونڈ نکالا۔
کوکس بازار میں یہ پہلی شادی ہے جو کسی بنگلہ دیشی نوجوان اور روہنگیا لڑکی کے دوران ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق کئی بنگلہ دیشی مرد روہنگیا مہاجرین کی لڑکیوں سے شادی کرنے کی خاطر کیمپوں کے چکر کاٹتے پھر رہے ہیں۔