ریمنڈ ڈیوس کیس، پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ
8 فروری 2011امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ نے ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثٰنی نہ دینے کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات ملتوی کر دیے ہیں۔ اس خبر کی اشاعت نے پاکستان کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا رکھی ہے۔
اسی دوران پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا براہ راست مطالبہ بھی کیا ہے۔ ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مسٹر منٹر نے صدر زرداری سے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے امریکی سفارت کار کو رہا کرے۔
ادھر دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے پاکستان پر جو دباؤ ڈال رہا ہے اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خصوصاً دہشت گردی کے خلاف جنگ سب سے زیادہ متاثر ہو گی۔
دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) شوکت قادر نے کہا کہ’’ افواج پاکستان بھی اس پر بضد ہیں کہ ڈیوس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ ڈرون حملوں میں ہر روز پاکستانی مر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر گلی کوچوں میں بھی گولیوں سے کسی شہری کو مارنا شروع کر دیں تو کیا ہو گا۔ ڈیڑھ سو سال گزر گئے ہیں آج تک امریکہ نے کسی شخص کو سفارتی استثنٰی نہیں دیا اور اب ان کی باری آئی ہے تو وہ کس منہ سےیہ بات کر رہے ہیں۔ بہرحال اس وقت امریکہ کی طرف سے استثنٰی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور ہم دباؤ میں ہیں تو دیکھیں اب بات کہاں پہنچتی ہے۔‘‘
دوسری جانب بظاہر پاکستان دفتر خارجہ اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کر رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مجوزہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے ہیں۔ تاہم امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ چوبیس فروری کو واشنگٹن میں پاک امریکہ اور افغان سہ فریقی مذاکرات کا انعقاد بھی مشکوک ہوگیا ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر طارق فاطمی کا کہنا ہے کہ امریکی ریمنڈ ڈیوس کو رہا کروانے کے لیے اپنے ذرائع ابلاغ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ’’جس طرح کے مطالبات کیے جا رہے ہیں ذرائع ابلاغ پر اور دباؤ ڈالا جا رہا ہے واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے عندیہ دیا جاتا ہے کہ شاید امریکی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اعلیٰ سطحی مذاکرات پاکستان کے ساتھ ختم کر دیے جائیں تو ایسے الٹی میٹم دینے سے تو یہاں پر بہت غلط تاثرات پڑیں گے۔ یہاں جمہوری حکومت ہے اور آزاد عدلیہ ہے میڈیا آزاد ہے اس لیے پاکستان کے عوام کو یہ تاثر ملے گا کہ شاید امریکہ چاہتاہے کہ پاکستان میں جمہوری ادارے فعال ہوں اورنہ صحیح معنوں میں کام کریں۔‘‘
دریں اثناء مقامی ذرائع ابلاغ پر اس طرح کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، جن کے مطابق صدر زرداری بھی اپنے آئندہ دورہ امریکہ پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم،اسلام آباد
ادارت : عدنان اسحاق