1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریو اولمپکس: پاکستان کی شناخت کہاں گئی؟

عاطف بلوچ2 اگست 2016

ریو اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں جہاں 206 اقوام کے کھلاڑی شریک ہوں گے تو وہاں صرف سات پاکستانی موجود ہوں گے۔ ان مقابلوں میں شریک پاکستانی ایتھلیٹس کی تعداد اٹلانٹک کے چھوٹے سے جزیرے برمودا کے کھلاڑیوں سے بھی کم ہے۔

https://p.dw.com/p/1JaEB
Olympia 2012 Pakistan Hockey
تصویر: Reuters

برازیل میں منعقد ہو رہے اولمپک مقابلوں میں پاکستان کا کوئی کھلاڑی باقاعدہ طور پر کوالیفائی نہ کر سکا ہے جب کہ ان مقابلوں میں شریک ہونے والے سات پاکستانی ایتھلیٹس کی شرکت ’وائلڈ کارڈ اینٹریز‘ یا کوٹا سسٹم تک ہی محدود رہی۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد گزشتہ اڑسٹھ برسوں میں اس ملک نے کرکٹ، ہاکی، اسکواش اور دیگر کھیلوں میں کئی نام ور ہیرو پیدا کیے ہیں لیکن پاکستان اب تک صرف دس اولمپک میڈل ہی اپنے نام کر سکا ہے، جن میں آٹھ فیلڈ ہاکی میں جب کہ دو انفرادی کھیلوں میں جیتے گئے۔

ریو اولمپکس کو پاکستانی کھیلوں کی زبوں حالی کی ایک منفرد مثال قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کہ اس مرتبہ پاکستانی ہاکی ٹیم بھی ان اہم کھیلوں کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکی ہے۔ سن انیس سو اڑتالیس میں پہلی مرتبہ لندن اولمپک مقابلوں میں پاکستانی ہاکی ٹیم نے کوالیفائی کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ یہ ٹیم اولمپک مقابلوں میں شرکت سے محروم رہی ہے۔

پاکستان میں کھیلوں میں پیدا ہونے والے اس بحران کا ذمے دار نا مناسب حکومتی سرپرستی اور فنڈز کی کمی کو قرار دیا جاتا ہے۔ اسپورٹس جرنلسٹ احسان قریشی کے مطابق، ’’بد قسمتی کی بات ہے کہ فنڈز حق دار ایتھلیٹس تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جو کھلاڑی پاکستان کو میڈل جتوا سکتے ہیں انہیں مناسب رہنمائی نہیں ملے گی تو صورت حال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں باکسنگ فیڈریشن کے صدر اقبال حسین نے بتایا کہ ان کی آرگنائزئشن کو اس مرتبہ صرف تین ہزار امریکی ڈالر ملے جب کہ سن دو ہزار بارہ میں اس فیڈریشن کو تین لاکھ امریکی ڈالر دیے گئے تھے۔

کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کو باکسنگ میں سلور میڈل جتوانے والے باکسر محمد وسیم اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے اپنا پروفیشن تبدیل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

سن دو ہزار دس میں نئی دہلی منعقدہ کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیتنے والے محمد انعام کا کہنا ہے، ’’اگر میڈل جیتنا ہیں تو سرمایا کاری کرنا ہو گی۔ صرف تربیت سے ہی میڈل نہیں جیتے جا سکتے۔ آپ کو مختلف مقابلوں میں شرکت کرنا ہوتی ہے تاکہ آپ اپنے کھیل کے معیار کو بہتر بنا سکیں۔‘‘

پاکستان میں کھیلوں کی تنزلی کی سب سے بڑی مثال ہاکی ہے۔ انیس سو ساٹھ، انیس سو اڑسٹھ اور انیس سو چوراسی کے اولمپک مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم کو سب سے بڑی کامیابی سن انیس سو بانوے میں ملی تھی، جب اس نے اولمپک مقابلوں میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا تھا۔ اس کے بعد اس کھیل میں بھی تنزلی آتی گئی۔

پاکستانی ہاکی ٹیم سن دو ہزار چودہ کے ورلڈ کپ کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر سکی تھی۔ اب ریو میں اولمپک مقابلوں میں شرکت سے محروم پاکستانی ہاکی ٹیم کے کرتا دھرتا پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر عارف حسن نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔‘‘

Olympia 2012 Mannschaft Pakistan
پاکستان میں کھیلوں میں پیدا ہونے والے اس بحران کا ذمے دار نا مناسب حکومتی سرپرستی اور فنڈز کی کمی کو قرار دیا جاتا ہےتصویر: Reuters
Sotschi - Eröffnungsfeier
پاکستانی ہاکی ٹیم سن دو ہزار چودہ کے ورلڈ کپ کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر سکی تھیتصویر: Reuters/Phil Noble

انیس سو چوراسی میں پاکستان کو گولڈ میڈل جتوانے والے ہاکی ٹیم کے رکن حنیف خان نے اس صورت حال پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’افسوس اور دکھ ہوتا ہے کیوں کہ پاکستانی ہاکی ٹیم اتنی مضبوط تھی کہ اسے پاکستان کی شناخت تصور کیا جاتا تھا۔‘‘

اس مایوس کن صورت حال کے باوجود بھی ریو اولمپک مقابلوں میں شرکت کرنے والے پاکستانی ایتھلیٹ شاہ حسین شاہ جوڈوکا میں گولڈ میڈل جیتنے کے لیے پرامید ہیں۔ انہوں نے سن دو ہزار چودہ کی کامن ویلتھ گیمز میں سلور جب کہ انیس سو اٹھاسی کی سیئول گیمز میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا تھا۔ ٹوکیو میں تربیت کرنے والے اس ایتھلیٹ کے مطابق انہوں نے بہت زیادہ محنت کی ہے اور وہ اپنے والد کے خوابوں کو تعبیر دیتے ہوئے گولڈ میڈل جیتنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید