ریپ ڈاکومنٹری نہ دکھائی جائے، بھارت کا یوٹیوب سے مطالبہ
5 مارچ 2015نئی دہلی سے آمدہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت ملکی نشریاتی اداروں کو یہ دستاویزی فلم دکھانے سے پہلے ہی روک چکی ہے اور اسی سلسلے میں آج جمعرات کے روز بھارتی حکام نے یوٹیوب کی انتظامیہ سے کیے جانے والے حکومتی مطالبے کی بھی تصدیق کر دی۔
بھارتی حکام کے مطابق کل بدھ کو رات گئے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو ایک قانونی نوٹس بھی جاری کر دیا گیا، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھی یہ دستاویزی فلم نہ دکھائے۔ India's Daughter یا ’بھارت کی بیٹی‘ کے نام سے بننے والی یہ ڈاکومنٹری اسی برطانوی نشریاتی ادارے کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔
اس پس منظر میں برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اسے اپنے ناطرین کو یہ دستاویزی فلم نہیں دکھانی چاہیے کیونکہ اس فلم کے پروڈیوسر کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
بھارت میں ممنوع قرار دی جانے والی یہ دستاویزی فلم اس لیے بھی ایک شدید بحث کی وجہ بنی ہے کہ اس میں 23 سالہ مقتول طالبہ کے ساتھ کیے گئے گینگ ریپ کے ایک سزا یافتہ مجرم کا ایک متنازعہ انٹرویو بھی شامل ہے۔
اس انٹرویو میں اس مجرم نے کہا ہے کہ مقتول طالبہ کو رات کے وقت گھر سے باہر نہیں ہونا چاہیے تھا اور اسے خود پر جنسی اور جسمانی حملہ کرنے والے ملزمان کے خلاف مزاحمت بھی نہیں کرنی چاہیے تھی۔
انتہائی متنازعہ ہو جانے والی یہ دستاویزی فلم آٹھ مارچ اتوار کے روز خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بھارت اور برطانیہ سمیت کم از کم سات ملکوں میں دکھائی جانا تھی۔ لیکن منگل تین مارچ کو رات گئے ایک بھارتی عدالت نے یہ حکم دے دیا تھا کہ بھارت میں اس دستاویزی فلم کی نمائش نہ کی جائے۔
نئی دہلی میں ملکی وزارت داخلہ کے ترجمان ایم اے گناپتھی نے آج اے ایف پی کو بتایا کہ حکومت نے یوٹیوب کے ساتھ رابطہ کر کے اس کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر وہ تمام ویڈیو لنکس بلاک کر دے، جن کی مدد سے یہ ڈاکومنٹری بھارت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ بھارتی حکومت کے یوٹیوب سے کیے گئے اس مطالبے سے پہلے بےشمار لوگ یہ فلم آن لائن دیکھ چکے تھے۔
اس گینگ ریپ کے سزا یافتہ مجرم اس وقت نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں اور اس فلم کی تیاری کے دوران ان مجرمان سے بی بی سی کی طرف سے انٹرویو اسی جیل میں کیے گئے تھے۔ تہاڑ جیل کے اہلکاروں کے مطابق انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو قانونی نوٹس دے دیا ہے اور اب جواب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے مطابق حکومت نے دسمبر 2012ء کے ایک واقعے پر بنائی گئی اس دستاویزی فلم پر پابندی کے لیے عدالت سے رجوع اس لیے کیا کہ اس فلم میں مکیش سنگھ نامی مجرم نے جو بیان دیے ہیں، وہ ’انتہائی توہین آمیز اور خواتین کی حرمت کے منافی‘ ہیں۔
میکش سنگھ اجتماعی جنسی زیادتی کے اس گھناؤنے واقعے کے ذمہ دار متعدد مجرمان میں سے ایک ہے اور عدالت کی طرف سے سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے بعد اس وقت دیگر مجرمان کے ہمراہ تہاڑ جیل میں بند ہے۔