زلزلہ متاثرین کی کسمپرسی، تیسری رات بھی گزر گئی
29 اکتوبر 2015متاثرین نے حکام اور امدادی اداروں اور رضا کاروں سے اپیل کی ہے کہ زلزلے کے متاثرین کو کمبل اور گرم کپڑے مہیا کرنے میں دیر نہ کریں بصورت دیگر شدید ہوتا موسم ان کے لیے اور اُن کے بچوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ پیر کے روز افغانستان اور پاکستان میں آنے والے زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چارسو کے قریب ہو چُکی ہے۔ ہلاکتوں کے علاوہ ہزاروں افراد بغیر کسی مناسب انتظام کے سخت سردی میں کھلے آسمان تلے گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ زلزلے سے متاثرہ کئی علاقے دور افتادہ ہیں اور وہاں تک پہنچنا دشوار ہے اور وہاں امداد کی ترسیل آسانی سے ممکن نہیں ہے۔ اِسی تناظر میں پاکستانی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ پہاڑی علاقوں کے بعض مقامات پر برفباری کا آغاز ہو گیا ہے اور خراب موسم بھی امدادی عمل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوج کے مختلف یونٹس امدادی عمل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبرپختونخوا کے ایک اہلکار محمد بہادر کا کہنا ہے کہ زلزلے کے فوری بعد جو کچھ گودام میں رکھا گیا تھا، وہ سب بانٹا جا چکا ہے اور مزید کی درخواست کی جا چکی ہے۔ بہادر کے مطابق رواں برس جولائی میں آنے والے سیلاب کے دوران بھی امدادی سامان تقسیم کیا گیا تھا اور اِس باعث زلزلے کے وقت گودام میں ہنگامی امدادی سامان میں کمی واقع ہو چکی تھی۔ محمد بہادر خیبرپختونخوا کے علاقے چترال کے ایک گاؤں دروش میں متعین ہے۔
ایسے ہی دوسرے افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں سے بھی امدادی سامان فراہم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ حکومتی سطح پر کئی غیرسرکاری تنظیمیں متاثرین تک امدادی سامان کی ترسیل کی فراہمی کے لیے متحرک بھی ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں اب تک گیارہ ہزار مکانات کی تباہی کا اندازہ لگایا جا چکا ہے۔ اِن گھروں کے ہزاروں مکین بےسروسامانی کی حالت میں ہیں۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ امداد کی فراہمی میں تاخیر سے سخت موسم کے باعث متاثرین کو جان لیوا بیماریوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
بظاہر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں آنے والے حالیہ زلزلے کے متاثرین کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے لیکن مقامی ذرائع ابلاغ پر زلزلے سے متاثرہ علاقوں سے آنے والی رپورٹوں کے مطابق بہت سی جگہوں پر اب بھی امداد نہیں پہنچائی جاسکی اور لوگ سخت سردی میں کھلے آسمان تلے بسر کر رہے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں زلزلے کے آفٹر شاکس کی وجہ سے لوگوں میں اب بھی شدید خوف وہراس پایا جاتا ہے۔
اُدھر مغربی امدادی ایجنسیوں نے طالبان عسکریت پسندوں کی موجودگی کو امدادی عمل میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ افغانستان میں 76 سو مکانات کی تباہی کا بتایا گیا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں اپنی عسکری کارروائیوں کو معطل کر رہے ہیں۔