سائنسی ترقی زلزلوں کا پیشگی پتہ چلانے میں ناکام کیوں؟
7 فروری 2023ترکیاور شام میں زلزلہ: ہلاکتوں کی تعداد تقریباﹰ پانچ ہزارکی میں آنے والے ہولناک زلزلے نے دنیا بھر میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے اور ہر طرف ایک ہی سوال زیر بحث ہے کہ زلزلوں کی پیشگی اطلاع دینے کا کوئی ایسا نظام ابھی تک وجود میں کیوں نہیں آ سکا ہے جس سے قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جانا ممکن ہو سکے۔ بدقسمتی سے پچھلے کئی عشروں کی تحقیق کے بعد بھی سائنسی ماہرین یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ ابھی تک دنیا میں کوئی ایسا موثر نظام نہیں بن سکا ہے جس کے ذریعے کسی علاقے میں زلزلے کے آنے کی حتمی پیش گوئی کی جا سکے۔
ماہرین ارضیات کے مطابق پچھلے کچھ عرصے میں زیر زمین ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات کو جاننے اور ان تبدیلیوں کی اطلاع لوگوں تک پہنچانے کے لئے جتنا بھی کام کیا گیا ہے اس سے زلزلے کا شکار ہونے والے لوگوں کی جان بچانے میں کوئی خاص مدد نہیں مل سکی ہے۔
استنبول میں اگلے تباہ کن زلزلے میں ’لاکھوں ہلاکتوں‘ کا خدشہ
یاد رہے عالمی ادارہ صحت کے مطابق پچھلے بیس سالوں میں دنیا بھر میں قدرتی آفات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں آدھی تعداد ان لوگوں کی تھی جو زلزلوں میں لقمہ اجل بنے تھے۔ منگل کے روز پاکستان کے ایوان بالا سے سینٹرز کے ایک وفد نے اسلام آباد میں واقع نیشنل سیسمک مانیٹرنگ سنٹر کا دورہ کیا اور پاکستان میں کسی ممکنہ زلزلے کا باعث بننے والی فالٹ لائنز کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اس موقع پر سیسمک سنٹر کے سربراہ اور چیف سیسمالوجسٹ زاہد رفیع نے انہیں پاکستان میں زلزلے کے حوالے سے ہونے والی تحقیق سے آگاہ کیا۔
اس ملاقات کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد رفیع نے بتایا کہ پاکستان میں زلزلے آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ان کا امکان رہے گا لیکن سوشل میڈیا پر نیدرلینڈ کے ایک ریسرچر کے حوالے سے گردش کرنے والی ان پوسٹوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان افغانستان اور بھارت کے قرب و جوار میں کسی زلزلے کی آمد متوقع ہے۔ زاہد رفیع کے مطابق، ''کسی بندے کا تکہ لگ جائے تو اور بات ہے وگرنہ ان اطلاعات میں کسی قسم کی سائنسی منطق موجود نہیں ہے۔ ‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے مختلف علاقوں میں بیس کے قریب جدید ترین سیسمک سنٹرز کام کر رہے ہیں۔ ان سنٹرز کو ڈیجیٹل آلات سے کراچی اور اسلام آباد کے کنٹرول سنٹرز کے ساتھ لنک کرکے عوام تک اطلاعات کی فراہمی کا ایک نظام قائم کیا جا چکا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کا نیشنل سیسمک سنٹر جاپان اور ہوائی کے زلزلہ وارننگ سنٹرز کے ساتھ منسلک ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں زیر زمین ہونے والی تبدیلیوں کی معلومات حاصل کرتا رہتا ہے۔
’’ ہم نے دو ہزار پانچ کے زلزلے کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں ریسرچ کرکے زلزلوں کا باعث بننے والی فالٹ لائنز کے بارے میں معلومات جمع کی ہیں۔ ان کا تجزیہ ہماری ویب سائیٹ پر بھی موجود ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقے، مکران ڈویژن، چترال، گلگت، کوئٹہ اور کشمیر سمیت کئی علاقوں میں فالٹ لائنز موجود ہیں۔ البتہ کراچی، منڈی بہاوالدین، حافظ آباد ، سانگلہ ہل اور منگلہ ڈیم کے قریبی علاقوں میں بہت چھوٹی چھوٹی فالٹ لائنز ہیں جو ریکٹر سکیل پر دو درجے کے زلزلے کا باعث بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب زلزلہ آتا ہے تو اس سے پہلے زمین میں ایک محدود سی حرکت شروع ہوجاتی ہے۔ عام انسان اس کا ادراک نہیں کر سکتا لیکن جانور اس کو بھانپ لیتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ زلزلے سے پہلے چوہے، سانپ، کیڑے مکوڑے اور پرندے یا دیگر جانور عمارتوں سے باہر نکل جاتے ہیں۔ اس بارے میں وضاحت کرتےہوئے انہوں نے کہا،'' دنیا بھر میں جاپان کی طرح بلند وبالا عمارتوں میں شاک آبزارور لگانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور ایسی ٹیکنالوجی سامنے آ رہی ہے جس سے زلزلے کے نقصات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
ترکی میں انسانوں کے لائے ہوئے زلزلے کا خطرہ، انقرہ کے میئر
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کچھ لوگ ترکی کے زلزلے کے پیچھے ایک بڑے ملک کا ہاتھ ہونے کا ذکر کرکے ایک سازشی تھیوری کو آگے بڑھا رہے ہیں، ان کے مطابق ترکی کا زلزلہ ''مین میڈ‘‘ نہیں ہے یہ صرف ایک قدرتی آفت ہے اور ایسی باتیں پاکستان میں دو ہزار پانچ کے زلزلے کے دوران بھی سنی گئی تھیں۔
یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے وائس چانسلر اور پنجاب یونیورسٹی کے کالج برائے ارضی اور ماحولیاتی علوم جامعہ پنجاب کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ساجد رشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کہ زلزلے کا باعث بننے والی زیر زمین پلیٹوں کی حرکت کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے اور اس کا چند منٹ پہلے بھی حتمی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ زلزلہ کب اور کتنی شدت کا آئے گا ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ تاریخی ریکارڈ اور ارضیاتی ریسرچ کی روشنی میں ہم زیر زمین فالٹ لائنز کا تجزیہ کرکے ان علاقوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں زلزلے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
ارضیاتی امور کے ماہر اور پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف جیالوجی کے ایک سابق استاد رؤف نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ زیر زمین پلیٹوں اور چٹانوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے بعض پلیٹوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور کسی کمزور پلیٹ پر زیادہ دباؤ پڑنے سے انرجی پیدا ہوتی ہے، جو زلزلے کا باعث بنتی ہے۔ اگر زلزلے کا باعث بننے والی لہر کا مرکز زمین کے قریب ہو یا اس کا رخ افقی جانب ہو تو پھر اس سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ ہم صرف احتیاطی تدابیر ہی اپنا سکتے ہیں۔ اس ماہر ارضیات کے مطابق ہونا یہ چاہیے کہ فالٹ لائنز والے علاقوں میں ہونے والی تعمیرات میں بلڈنگ کوڈز کا خیال رکھا جائے اور ان علاقوں میں اربنائزیشن میں زیادہ اضافہ نہ ہونے دیا جائے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بعض اوقات زلزلوں کے بارے میں غلط اطلاعات زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ پاکستان میں بعض لوگ علم نجوم کے زریعے بھی قدرتی آفات کی ٹو ہ لگانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔