سعودی عرب پر حملے: ’میزائل ایرانی ساختہ تھے،‘ اقوام متحدہ
13 جون 2020نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر سے ہفتہ تیرہ جون کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ایک ایسی رپورٹ میں کہی گئی ہے، جو عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے پیش کی۔ اس دستاویز میں اس امر کا احاطہ کیا گیا ہے کہ 2015ء میں عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین جو جوہری معاہدہ طے پایا تھا، اس پر کس حد تک عمل درآمد ہوا ہے۔
اس دستاویز میں، جو نیوز ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگار نے ذاتی طور پر دیکھی، سعودی عرب پر 2019ء میں کیے گئے میزائل اور ڈرون حملوں سے متعلق جو باتیں کہی گئی ہیں، ان کی بنیاد ایسے ہتھیاروں کے ملبے اور بچے کھچے پرزوں کے تفصیلی تکنیکی جائزے سے حاصل ہونے والی معلومات کو بنایا گیا ہے۔
ہدف سعودی عرب کی تیل تنصیبات اور بین الاقوامی ہوائی اڈہ
یمن کی خانہ جنگی کے پس منظر میں سعودی عرب پر یہ فضائی حملے گزشتہ برس یمن کے ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں نے کیے تھے۔
ان حملوں میں مئی میں عفیف میں تیل کی سعودی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے جون اور اگست کے مہینوں میں ابھاء کے سعودی شہر میں واقع ایک بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
ان حملوں کے علاوہ گزشتہ برس ستمبر میں سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی ارامکو کی خریص اور بقیق کے شہروں میں تیل صاف کرنے کی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کی پیش کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل کے دفتر کے مطابق سعودی عرب پر ان چار فضائی حملوں میں استعمال ہونے والے کروز میزائل اور ڈرونز یا تو ایرانی ساختہ تھے، یا پھر ان کے پرزے ایران میں تیار کیے گئے تھے۔‘‘
سعودی عرب کو وسیع تر اقتصادی نقصان
اسی طرح گوٹیرش کی طرف سے عالمی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس مئی اور ستمبر کے مہینوں میں سعودی عرب پر فضائی حملوں میں جو ڈرون بھی استعمال ہوئے تھے، وہ بھی یا تو پورے کے پورے یا پھر جزوی طور پر ایران ہی میں تیار کیے گئے تھے۔
سعودی عرب کو بیک وقت کیے جانے والے ان کثیر السمتی فضائی حملوں سے شدید مالی نقصان ہوا تھا اور اسی وجہ سے تیل برآمد کرنے والے دنیا کے اس سب سے بڑے ملک میں تیل کی مجموعی پیداوار میں سے نصف کے برابر جزوی طور پر متاثر بھی ہوئی تھی۔
ایران اس سلسلے میں خود پر عائد کیے جانے والے الزامات کی نفی کرتا ہے اور انٹونیو گوٹیرش نے اپنی رپورٹ میں ایران کے ساتھ کئی بار ہونے والی اس مکالمت اور ان رابطوں کا ذکر بھی کیا ہے، جن میں تہران نے اپنے خلاف لگائے گئے ایسے جملہ الزامات کو سرے سے رد کر دیا تھا۔
م م / ع س (اے ایف پی)