1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سمدھی گورنر کیسے بنے؟ مولانا فضل الرحمان تنقید کی زد میں

عبدالستار، اسلام آباد
23 نومبر 2022

جمیعت علماء اسلام کے سربراہ کو سمدھی کی بطورگورنر کے پی تعیناتی پر اقربا پروری کے الزامات کا سامنا ہے۔ جے یو آئی خاندانی سیاست کو فروغ دینے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4JxPW
Pakistan, Peshawar: Proteste gegen die Regierung von  Imran Khan - Fazal-ur Rehman
تصویر: Reuters/F. Aziz

پاکستان میں موروثی سیاست کو فروغ دینے پر نون لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی تو ہمیشہ سے ہی تنقید کی زد میں رہی ہیں لیکن اب حکومتی اتحاد میں شامل جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کوبھی اقربا پروری کے الزامات کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ مولانا فضل الرحمان کے سمدھی حاجی غلام علی کی بطور گورنر خیبر پختوانخواہ تعیناتی ہے۔ جمیعت علماء اسلام(جے یو آئی) ہمیشہ سے  ایک نظریاتی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی آئی ہے۔ تاہم اب اس کے ناقدین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا  اس پوری جماعت میں نظریاتی لوگ صرف مولانا فضل الرحمان کے رشتے داروں ہی میں ہیں۔

Pakistan | Mian Muhammad Shahbaz Sharif
مولانا فضل الرحمن کے صاحبزدے اسعد محمود موجودہ حکومت میں وفاقی وزیر ہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

مولانا اقربا پروری میں مصروف؟

ماضی میں جمعیت سے وابستہ رہنے والے کچھ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس عمل کی وجہ سے جمعیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔جے یوآئی کے سابق رہنما اور سینیٹر حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ مولانا رشتے داروں اور دوستوں کو نوازنے میں مصروف ہیں۔ حافظ حسین احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مولانا کے بیٹے اسعد وفاقی وزیر ہیں جبکہ ان کے سگے بھائی مولانا عطاءالرحمان نہ صرف سینیٹر ہیں بلکہ وہ جمعیت علماء اسلام کے خیبرپختونخوا میں امیر بھی ہیں۔ دوسرے بھائی  لطف الرحمان کے پی اسمبلی کے رکن اور اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں جمیعت کےامیر بھی ہیں۔  حاجی غلام علی مولانا فضل الرحمن کے سمدھی ہیں۔ مولانا کی سالی شاہدہ اختر علی رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن رہی ہیں۔ پشاور کا میئر بھی مولانا کا رشتہ دار ہےجبکہ مولانا کے دوست اکرم درانی کا بیٹا ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ہے۔‘‘

حافظ حسین احمد  نے الزام لگایا کہ مولانا کی اقربا پروری کے خلاف  آواز اٹھانے پر ہی انہیں اور ان کے چند دیگر ساتھیوں کوغیر جمہوری طریقے سے پارٹی سے نکال باہر کیا گیا۔

پاکستان کی موروثی سیاست بھی ’گیم آف تھرونز‘

مولانا کے پاس سارے اختیارات ہیں

حافظ حسین احمد کے مطابق مولانا نے پارٹی میں مشاورت کو بالکل ختم کردیا ہے۔  انہوں نے مزید کہا، ’’ماضی میں ضلعی پارٹی رکن صوبائی اسمبلی، رکن قومی اسمبلی، سینیٹر اور دوسرے منتخب نمائندوں کو نامزد کرتی تھی اور اپنی سفارشات کو صوبائی قیادت کے پاس بھیج دیا جاتا تھا۔ اگر ان سفارشات کے برعکس کوئی اقدام اٹھایا جاتا تھا تو پھر مرکز میں اپیل کی جاتی تھی لیکن اب مولانا فضل الرحمان نے یہ سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔‘‘ حافظ حسین احمد نے دعویٰ کیا کہ جے یو آئی کے سربراہ نے  اپنی مرضی سے ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹرز بنائے، ’’ ماضی میں انہوں(فضل الرحمان) نے یہ اختیارات استعمال کرکے اعظم سواتی اور طلحہ محمود کوسینٹ کے ٹکٹ دیے، جس پر تنقید بھی ہوئی۔‘‘

Pakistan I Maulana Muhammad Khan Sherani
مولانا محمد خان شیرانی جمیعت علما اسلام (ف) کے سینئیر ترین رہنماؤں میں ہوتا تھا، تاہم اندرونی اختلافات کی وجہ سے اب وہ جے یو آئی کے دیگر ناراض رہنماؤں کے ساتھ ملک کر اپنی جماعت بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔تصویر: F. Ahmed/EPA/dpa/picture-alliance

  سیاست کی بدقسمتی

 کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاستدان کبھی ماضی سے کچھ نہیں سیکھتے اور ہمیشہ مشکل وقت میں ساتھ دینے والے اپنے وفادار کارکنان کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ ایریا اسٹڈی سینٹر پشاور یونیورسٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہےکہ مولانا فضل الرحمن نے کوئی انھوکا کام نہیں کیا ۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے سرفراز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں پر خاندانی سیاست نے اتنی جڑیں پکڑ لی ہیں کہ اب خاندانوں کے بغیر سیاست کرنا ہی مشکل ہے۔ نواز شریف نے اپنے گھرانے کے کئی افراد کو پارٹی اور حکومت میں اہم عہدے دلوائے۔ پیپلز پارٹی نے بھی خاندانی بادشاہت کو فروغ دیا اور تمام اہم عہدے خاندان کے پاس رہے۔ محمود خان اچکزئی اور ولی خان کے خاندانوں نے بھی تقریباﹰ یہی کام کیا اور اب مولانا فضل الرحمن نے تو حد ہی کر دی ہے۔‘‘

پاکستانی سیاست پر 70 خاندانوں کی حکمرانی

مولانا کی سیاست کو نقصان

جمعیت کے باغی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس اقربا پروری سے فضل الرحمان کو سیاسی نقصان ہورہا ہے ہے۔ حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ لوگ جے یو آئی ایف کو چھوڑ رہے ہیں۔'' مولانا شیرانی، گل نصیب اور میں  نے جمیعت علماء اسلام کے نام سے کام شروع کر دیا ہے۔ ہم پشاور، نوشہرہ، بلوچستان، پنجاب اور پورے ملک میں اپنے دفاتر کھول رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ جمیعت سے مزید لوگ چھوڑ کر ہماری طرف آئیں گے کیونکہ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیاست کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘

پنجاب میں موروثی سیاست کی نیرنگیاں

تاہم سرفراز خان کا کہنا ہے کہ اس سے فضل الرحمن کو نقصان نہیں ہوگا، ''کیونکہ ان کی پارٹی پر بھی گرفت بہت مضبوط ہے اور وہ انفرادی طور پر بھی بہت مضبوط آدمی ہیں جبکہ کارکنان اور مدارس بھی ان کے ساتھ ہیں۔‘‘

Pakistan | Demonstration der Opposition gegen Imran Khan
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی اپنی جماعت پر گرفت مظبوط ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

تنقید بے جا ہے

جہاں، سوشل میڈیا پر اس تقرری پر تنقید کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اور کئی نامور صحافی مولانا فضل الرحمن کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں، وہیں جمعیت علماء اسلام کا مؤقف ہے کہ تمام تقرریاں میرٹ پر ہوئی ہیں۔ جمیعت کی مرکزی شوریٰ کے رکن محمد جلال الدین ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' لوگ غلام علی پر تنقید کر رہے ہیں لیکن غلام علی 1979ء سے جمیعت کے ساتھ ہیں۔ بالکل اسی طرح عطاءالرحمان اور لطف رحمان بھی روز اول سے جمیعت کے ساتھ ہیں۔ ان کو ٹکٹ دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ مفتی محمود کے گھرانے کو پسند کرتے ہیں۔ ہم نے علی امین گنڈا پور کے مقابلے میں مفتی محمود کے گھرانے سے ہٹ کر کسی کو ٹکٹ دیا تھا اور وہاں ہمیں شکست ہوئی۔‘‘

  شاہدہ اختر علی کو ٹکٹ دینے کا دفاع کرتےہوئے جلال الدین کا کہنا تھا کہ مشرف کے دور میں جب اچانک خواتین کی نشستیں بڑھائی گئیں تو اس وقت جمیعت کے پاس بڑی تعداد میں خواتین نہیں تھی۔ جلال الدین نے کہا، '' ہم نے کئی لوگوں سے درخواست کی کہ وہ اپنی بہنوں، بیٹیوں یا خواتین رشتے داروں کے نام اراکین اسمبلی کے لیے دیں لیکن لوگ نام دینے کے لیے تیار نہیں تھے تو مجبوراﹰ ہمیں پھر شاہدہ اختر علی کو نامزد کرنا پڑا۔‘‘  جے یو آئی کے اس رہنما کا کہنا تھا کہ یہ نامزدگی بھی خلاف میرٹ نہیں ہے کیوں کہ شاہدہ اختر علی بہت پڑھی لکھی خاتون ہیں اور ٹکٹ دینے کی وجہ مولانا فضل الرحمن سے رشتہ داری قطعا نہیں تھی۔

موروثیت: پاکستان میں جمہوریت کو لاحق سب سے بڑا چیلنج