1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ اسمبلی میں ارکان کی حلف برداری، اپوزیشن کا احتجاج

24 فروری 2024

جی ڈی اے، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا۔ انتظامیہ نے صوبائی اسمبلی سے ملحقہ ریڈ زون میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی۔

https://p.dw.com/p/4cq09
پہلی قطار میں دائیں سے بائیں: اسمبلی اراکین مراد علی شاہ، قائم علی شاہ اور فریال تالپور حلف اٹھاتے ہوئے
پہلی قطار میں دائیں سے بائیں: اسمبلی اراکین مراد علی شاہ، قائم علی شاہ اور فریال تالپور حلف اٹھاتے ہوئےتصویر: Sindh press secretary

سندھ  کی صوبائی اسمبلی کے نومنتخب ارکان نے آج ہفتے کے روز حلف اٹھا لیا۔ اس دوران اسمبلی کے باہر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا۔

پولیس نے اسمبلی کے قریب سیاسی جماعتوں کے احتجاجی مظاہرے پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے کارکنان کو منتشر کر دیا۔ اس دوران خواتین سمیت درجنوں مظاہرین کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما راشد سومرو کی قیادت میں اندرون سندھ سے کراچی آنے والے ایک احتجاجی قافلے کو شہر سے باہر ہی روک لیا گیا۔

اس پر قافلے میں شامل مظاہرین نے سپر ہائی وے ٹول پلازہ پر دھرنا دیا۔ جمعیت علمائے اسلام سندھ کے سیکرٹری جنرل راشد سومرو نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا ہے، جس کے خلاف ہم پرامن احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔ پولیس نے ہمیں بغیر کسی نوٹس کے اور خلاف قانون روکا ہوا ہے۔‘‘

اپوزیشن جماعتوں کا مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج
اپوزیشن جماعتوں کا مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجتصویر: Fareed Khan/AP Photo/picture alliance

راشد سومرو کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج ان کا حق ہے اور عدالت پولیس کے غیرقانونی اقدام کا نوٹس لے۔

ریڈ زون میں دفعہ 144 کا نفاذ

انتظامیہ کی جانب سے سندھ اسمبلی میں نو منتخب ارکان کی حلف برداری کے باعث سکیورٹی کے سخت انتظامات کیےگئے تھے۔ اسمبلی کے ارد گرد ریڈ زون میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ اس دوران اسمبلی تک آنے والے راستوں کو کنٹینر کھڑے کر کے بند کر دیا گیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ شہر میں کئی مقامات پر راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ٹریفک کو جزوی طور پر معطل رکھا گیا۔ تاہم یہ اقدام بھی احتجاج کو روکنے میں ناکام رہا۔ ٹریفک جام کی وجہ سے عام شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

نگران وزیر داخلہ کا انتباہ

 نگران صوبائی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی شر انگیزی اور لاقانونیت کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ امن و امان کی بحالی کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔

سندھ اسمبلی کو جانے والی شاہراہوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا تھا
سندھ اسمبلی کو جانے والی شاہراہوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا تھاتصویر: Fareed Khan/AP Photo/picture alliance

سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی نامزدگی

سندھ اسمبلی کے 168 رکنی ایوان میں آج 147 اراکین نے حلف اٹھایا۔ خیال رہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 114 جبکہ ایم کیو ایم کے 36  اراکین ہیں۔ جی ڈی اے، جمعیت علمائے اسلام (ف)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے نومنتخب اراکین نے اجتجاجاﹰ اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

حلف برداری کے بعد  سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔ ان دونوں عہدوں کے لیے انتخابی عمل کل بروز اتوار صبح گیارہ بجے شروع ہو گا۔ پی پی پی نے سپیکر کے لیے اویس شاہ اور ڈپٹی سپیکر کے لیے نوید انتھونی کو نامزد کیا ہے۔

پیپلزپارٹی پر تنقید 

 پیپلزپارٹی کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے لیے مسلسل تیسری مرتبہ مراد علی شاہ کی نامزدگی پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی ’’ناقص حکومتی کارکردگی‘‘ کے باوجود ایک ہی سیاست دان کو مسلسل تین بار وزیر اعلیٰ بنانا ’’غیر مقبول فیصلہ‘‘ ہے۔ کئی ناقدین یہ بھی پوچھتے ہیں کہ آیا پیپلز پارٹی کی پاس صوبائی وزارت اعلیٰ کے لیے کوئی اور زیادہ موزوں شخصیت نہیں تھی؟

پی پی پی نے مراد علی شاہ کو مسلسل تیسری مرتبہ وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے
پی پی پی نے مراد علی شاہ کو مسلسل تیسری مرتبہ وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہےتصویر: Sindh press secretary

اسی دوران پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نثار کھوڑو نے اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست کے ذریعے ’’عوام کا وقت ضائع نہ کریں۔‘‘ کراچی میں صوبائی اسمبلی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومتیں اپنی مدت پوری کریں گی۔

کئی تجزیہ کاروں کی رائے میں صوبے میں سیاسی احتجاج کا سلسلہ جلد رکے گا نہیں اور اپوزیشن جماعتیں آئندہ دنوں میں اپنے احتجاج میں شدت لا سکتی ہیں۔