1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا

1 فروری 2011

پاکستان میں جمہوری حکومت کی موجودگی اور فوج کی جانب سے شدت پسندوں کا صفایا کر دینے کےدعوے کے باوجود سوات سے ملحقہ ضلع شانگلہ کے حالیہ ضمنی انتخابات میں ایک بھی خاتون پولنگ میں حصہ نہیں لے سکی۔

https://p.dw.com/p/108aW
وادئی سوات کو پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان میں جمہوری حکومت کی موجودگی اور فوج کی جانب سے شدت پسندوں کا صفایا کر دینے کےدعوے کے باوجود سوات سے ملحقہ ضلع شانگلہ کے حالیہ ضمنی انتخابات میں ایک بھی خاتون پولنگ میں حصہ نہیں لے سکی۔

پاکستان میں خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن نے ضلع شانگلہ کی صوبائی نشست پر ضمنی انتخاب میں ایک لاکھ پینتالیس ہزار رجسٹرڈ ووٹروں میں سے ایک بھی خاتون کے ووٹ نہ ڈالنے کو خوفزدہ کر دینے والا عمل قرار دیا ہے۔

کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق شانگلہ میں خواتین کے لیے چودہ پولنگ اسٹیشن مختص کیے گئے تھے لیکن اس کے باوجود کہیں پر ایک بھی خاتون اپنا حق رائے دہی استعمال نہ کر سکی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ خواتین کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سترہ فیصد نمائندگی کے باوجود ماضی کی طرح آج بھی کئی علاقوں میں خواتین کو ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے قومی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ انیسہ ہارون نے کہا کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ شانگلہ میں تمام سیاسی جماعتوں نے ایک باہمی معاہدے کے بعد خواتین کے ووٹ بینک کو غصب کیا۔ انہوں نے کہا کہ‘‘سیاسی جماعتوں کے اوپر کوئی ایسا دباؤ نہیں ہوتا یہ خود ہی ایسا طے کر لیتی ہیں جو کہ وہاں کی ایک فرسودہ روایت چلی آ رہی ہے ہم اس کو برقرار رکھیں گے اور یہ الیکشن جیتنے کے لیے ایسے کمپرومائزز کرتی ہیں۔ یہ ساری خرابیاں اسی سیاسی کھیل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔''

صوبہ خیبر پختونخواہ میں برسر اقتدار عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ ق ، جے یو آئی، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے علاوہ آزاد امیدواروں نے بھی اس انتخاب میں حصہ لیا تھا اور مسلم لیگ ق کے امیدوار نے یہاں کامیابی حاصل کی۔ تاہم عوامی نیشنل پارٹی کی رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے الیکشن کمشنر کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں شانگلہ کے ضمنی انتخابات میں خواتین کے ساتھ روا رکھےجانے والے سلوک کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ادھر الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ انتخابی قوانین کے مطابق کسی بھی شخص کو بزور طاقت ووٹ ڈالنے سے روکنا جرم ہے انہوں نے کہا کہ 1973ء کے عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت واضح ہے کہ خواتین کو بھی مردوں کے برابر ووٹ ڈالنے کی آزادی ہے ۔ تاہم کنور دلشاد نے الیکشن کمیشن کی جانب سے اب تک اس طرح شکایات پر ایکشن نہ لینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ‘‘ریٹرننگ افسران کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ میں یہ بتایا جائے گا کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کے باعث خواتین اپنے گھروں سے نہیں نکلیں۔ اس سے الیکشن کمیشن پاکستان کے لیے اس چیز کا تعین کرنے میں مشکل ہوتی ہے کہ کیا خواتین نے اپنی مرضی سے ووٹ کاسٹ نہیں کیا یا انہیں ووٹ کاسٹ کرنے سے جبری طور پر روکا گیا ہے۔''

پاکستان میں خواتین کی تعداد کل آبادی کے نصف سے زائد یعنی اکیاون فیصد بتائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود دیگر معاملات میں جہاں انہیں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں پر انہیں انتخابی عمل میں بھی حصہ لینے سے دور رکھا جاتا ہے ۔مبصرین کے مطابق خواتین کی طرف سے انتخابات میں بھرپور حق رائے دہی استعمال کرنے سے بہت سی جگہوں پر الیکشن کے نتائج مکمل بدل سکتے ہیں۔

رپورٹ: شکور رحیم

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں