سوشل میڈیا نے پاکستانی لوک گلوکاروں کی زندگیاں کیسے بدلیں؟
21 جون 2024پاکستان میں حالیہ چند سالوں کے دوران مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے گلوکاری کے میدان میں قسمت آزمائی کے واقعات میں قابل زکر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز خاص طور پر یوٹیوب کی وجہ سے نئے گلوکاروں اور لوک فنکاروں کو حاصل ہونے والی وسیع پزیرائی اور ان کے مالی حالات میں آنے والی بہتری ہے۔
اب سوشل میڈیا کے اس دور میں بیشتر لوک فنکار ایک ایسی خوشحال زندگی اور مقبولیت رکھتے ہیں، جس کا ماضی قریب میں تصور تک نہ تھا۔ گزشتہ نسلوں کے لوک گلوکاروں کی شہرت اور آمدن کا انحصار یوٹیوب وغیرہ کے برعکس شادی بیاہ کی محفلوں اور آڈیو کیسٹس پر ہوا کرتا تھا۔ آج کے لوک گلوکار اپنے ایک ہٹ گانے سے راتوں رات وہ شہرت اور دولت کما سکتے ہیں، جو ماضی میں فن کو تمام عمر دینے کے بعد بھی نصیب نہ ہوتی تھی۔
اس کی ایک بہترین مثال صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے گلوکار ملکو کا گیت 'نک دا کوکا‘ ہے ۔ اس گیت کو صرف یوٹیوب پر چھ ماہ کے دوران چھ کروڑ سے زیادہ مرتبہ سنا گیا۔
بڑے نام جو یوٹیوب پرمحفوظ رہ گئے
استاد حسین بخش ڈھاڈی بہاولپور کے نامور لوک گلوکار تھے، جو نوے کی دہائی میں وفات پا گئے۔ یوٹیوب پر موجود ان کے پانچ سات گیت یادگار رہ گئے ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرحوم کو سروں پر کیامہارت حاصل تھی۔ ریڈیو بہاولپور پر طویل عرصے تک گانے اور بیسیوں آڈیو کیسٹس کی مارکیٹ میں موجودگی کے باوجود ان کی زندگی مالی آسودگی سے کوسوں دور رہی۔
لوک گلوکاروں میں پھاپو بھیرے والی، استاد نذر حسین ڈھوکڑی، احمد خان ملنگ، شوکت چکیاں والا اور بشیرا چوکی بھاگٹ چند ایسے نام ہیں، جنہیں سوشل میڈیا سے بس یہ فائدہ ہوا کہ ان کے گائے چند گیت یوٹیوب پر محفوظ ہو گئے اور یوں ان کا نام زندہ ہے۔
یہ بہت قدیم زمانوں کے فنکار نہیں بلکہ دو تین دہائیوں پہلے تک کے لوگ ہیں۔ ان کا گزارہ مقامی سطح پر شادی بیاہ کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے مرہون منت تھا۔ ان کی آڈیو کیسٹس بھی کوئی ایسا منفعت بخش کاروبار نہ تھا کہ جو دھڑا دھڑ بک جاتے۔ یہ شوقیہ مگر خداد صلاحیتوں کے مالک ایسے فنکار تھے، جن کی زندگیاں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں گزریں۔ اس کی جیتی جاگتی مثال واں بھچراں کے احمد خان ملنگ ہیں، جو آج بھی گمنامی اور غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
نسبتاﹰبہترمواقعوں کا دور
یہ ذرا بعد کی دہائیوں کے لوگ ہیں یا کہہ لیجیے کہ انہیں اپنے پیشرو لوک فنکاروں کی نسبت آڈیو کیسٹ کے ذریعے اپنا فن پھیلانے کے بہتر مواقع میسر آئے، یہ مقامی سطح پر زیادہ مشہور اور اپنے سامعین کا نسبتاً بڑا حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے، مثلاً منصور ملنگی، طالب حسین درد اور اللہ دتہ لونے والا۔ ان گلوکاروں کا دائرہ اثر زیادہ تر سرائیکی بیلٹ میں رہا۔ پاک گرامو فون ایجنسی جھنگ اور غفار ساؤنڈ خوشاب جیسی ریکارڈنگ کمپنیوں نے ان کے سینکڑوں گیت آڈیو کیسٹوں کی شکل میں پیش کیے۔
ان کے مالی حالات بہت زیادہ خراب تو نہ تھے مگر قابل رشک بھی نہ تھے۔ کیا آڈیوکیسٹیں تیار کرنے والی کمپنیاں فنکاروں کو معقول معاوضے بھی ادا کرتی تھیں؟ اس سوال کے جواب میں پاک گرامو فون کے مینجر زاور عباس نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”اس زمانے میں ریکارڈنگ دو طرح سے ہوتی تھی، شادی کے فنکشن میں گلوکار کو ریکارڈ کر لیا جاتا یا پرائیویٹ اسٹوڈیو میں۔ رائیلٹی کے بجائے یک مشت ادائیگی کر دی جاتی تھی۔ گزشتہ دہائی تک ایک انتہائی مشہور گلوکار کا ایک گیت کا معاوضہ بیس ہزار روپے تک تھا۔ اگر اس نے شادی میں گایا تو اسے چار پانچ ہزار کی 'ویلیں‘ (سلامی) بھی مل جایا کرتی تھیں۔"
شادی بیاہ کے مواقعوں پر اپنے علاقوں کے معروف ترین یہ نام لاکھوں نہیں بلکہ محض چند ہزار میں بُک کر لیے جاتے تھے۔ ہم نے جھنگ کے ایک لاجواب اور انتہائی مشہور لوک فنکار کے ہمراہ پرفارم کر چکے ایک ڈھولک نواز سے پوچھا کہ خان صاحب کو شادی کا کیا ہدیہ پیش کیا جاتا تھا، تو اس ڈھولک نواز نے بتایا، ”خان صاب پچاس سال تک گاتے رہے اور شاید ہی کوئی دن گائے بغیر گزارا ہو۔ اس کے باوجود اس قابل نہ ہو سکے کہ ایک آرام دہ گاڑی خرید سکیں۔"
ٹی وی سے سپر سٹار بننے والے لوک گائیک
سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے اگر فوک گلوکاروں میں کوئی سپر سٹار تھا، تو وہ سرکاری ٹیلی ویژن یعنی پی ٹی وی کی اسکرین پر جلوہ گر ہونے کا مرہون منت تھا۔ مثال کے طور پر عطاء اللہ خان عیسی خیلوی کو 1973 میں پہلی بار پی ٹی وی کے پروگرام نیلام گھر میں گانے کا موقع ملا، جس نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اگلے سال فیصل آباد کی ایک ریکارڈنگ کمپنی نے ان کے چار آڈیو البم ریلیز کیے، جنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
عطا اللہ عیسی خیلوی پنجاب کے ان انتہائی چند خوش قسمت لوک فنکاروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے بہت آسودہ حال زندگی گزاری۔ پٹھانے خان، طفیل نیاز، مسرت نذیر اور عالم لوہار جیسے پنجاب کے لوک فنکاروں کو بار بار ٹی وی پر آنے کی وجہ سے دیگر لوک گلوکاروں کی نسبت زیادہ شہرت ملی اور ان میں سے اکثر نے فنی اور مالی لحاظ سے بہتر زندگیاں گزاریں۔
سوشل میڈیا ایک 'گیم چینجر‘
گذشتہ چند برس کے دوران لوک گلوکاروں کی زندگیوں نے ایسا پلٹا کھایا کہ جیسے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بنجر صحرا نخلستان میں بدل گیا ہو۔ پرانے زمانے میں ایک آدھ مثال چھوڑ کر زیادہ تر لوک گلوکار سٹیج پر بیٹھ یا کھڑے ہو کر پُرسکون انداز میں گاتے مگر آج یہ چلن بھی کافی حد تک تبدیل ہو گیا ہے۔ اب ذیشان روکھڑی ہوں یا سلطانی، نئے گلوکار ویڈیوز میں خود کو انتہائی گلیمرس اور پرکشش انداز میں پیش کرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے مقبول پنجابی گلوکار سلطانی کہتے ہیں، ”اب گانے کی تیاری میں ویڈیو اور آڈیو کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ گانے کی دھن، بول اور فائنل ٹیک سے زیادہ ٹائم ویڈیو تیار کرنے میں لگ جائے۔ اس میں کچھ غلط بھی نہیں۔ اب گائیکی پوری طرح ایک ویژؤل آرٹ ہے۔"
سلطانی کا مزید کہنا تھا، ”سوشل میڈیا نے لوک گلوکاروں کو ہیرو بنا دیا ہے۔ اب لوگ انہیں سننا ہی نہیں دیکھنا بھی چاہتے ہیں۔ وہ معاشی طور پر خود مختار ہیں اس لیے جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ اب بڑا سٹوڈیو نہیں بلکہ سوشل میڈیا اسٹار بناتا ہے، محض ایک کلپ ہٹ ہونے کی دیر ہے کہ خاندانوں کی زندگیاں بدل جاتی ہیں۔ محض یوٹیوب اتنا دے رہی کہ کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔"
سوشل میڈیا کے لوگ گلوکاروں کے فن کو اجاگر کرنے سے متعلق ایک مثال منصور ملنگی کے مشہور ترین گیتوں میں سے ایک 'جیڑا سامنے دیسندا اوہو گھر ہے بے وفا دا‘ ہے۔ اس گانے کی زیادہ سے زیادہ پانچ سو کیسٹ ریکارڈ تیار ہوئے اور یوٹیوب پر خود منصور ملنگی کی آواز میں دو لاکھ لوگوں نے اسے سنا ہے۔ لیکن یہی گیت ان کے بیٹے مجاہد منصور ملنگی نے گایا جو اب تک ایک کروڑ ستر لاکھ مرتبہ سنا جا چکا ہے۔ اس سے اندازاہ لگایا جا سکتا ہے کہ مجاہد کی اپنے باپ کی مقابلے میں ایک لوک فنکار کے طور پر پہنچ کتنی زیادہ بڑھ چکی ہے اور انہیں اس پیشرفت سے کس قدر مالی فائدہ حاصل ہو رہا ہو گا۔
معیاراورحق تلفی کے شکوے
سوشل میڈیا ایلگوردھم کے ماہر اور میوزک چینلز کی ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے وابستہ ذیشان ملک کا کہنا ہے، ”لوک گلوکاروں اور پرانی کیسٹ کمپنیوں میں گذشتہ تین سال کے دوران مارکیٹ کی بہت بہتر سوجھ بوجھ پیدا ہوئی۔ اب مقامی سطح پر کسی بھی مشہور گلوکار کے ساتھ میک اپ ٹیم ہو گی، مینجر ہو گا، پورا پروٹوکول فالو ہو گا۔ وہ کہیں جائے گا تو اس کے ساتھ چار گاڑیاں ہوں گی۔ سب جانتے کہ یہ چیزیں کمائی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔"
مگر کہیں شہرت اور پیسے کی دوڑ میں فن تو کمپرومائز نہیں ہو رہا؟ بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ کسی گیت کو دوبارہ تخلیق کرتے ہوئے اس کے اصل فنکاروں کو کریڈٹ نہ دینا ہے۔ واں بھچراں کے احمد خان ملنگ آج بھی گمنامی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کے گائے گیت دوبارہ گا کر عطا اللہ عیسی خیلوی، علی ظفر اور آئمہ بیگ لاکھوں ویوز حاصل کر چکے ہیں۔ 'بالو بتیاں‘ اور 'مست ملنگ چا کیتا ای‘ کے اصل خالق احمد خان ملنگ یقیناً اس نوعیت کی حق تلفی کی واحد مثال نہیں۔
سوشل میڈیا نے بہت سے لوک گلوکاروں کی زندگیاں تبدیل کر دیں مگر یہ تلخ حقیقت بہرحال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ انٹرنیٹ تک رسائی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی سمجھ بوجھ نہ رکھنے والے بہت سے سازندے اور مقامی لوک فنکاروں کی ایک بڑی تعداد آج بھی گمنامی اور کسمپرسی کی حالت میں زندگیاں گزار رہی ہے۔