سپریم کورٹ کے حکم پر صحافی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج
6 دسمبر 2022اسلام آباد پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر صحافی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ یہ مقدمہ پولیس کی مدعیت میں وفاقی دارالحکومت کے تھانہ رمنا میں درج کیا گیا ہے۔ پاکستانی ٹی وی چینل ڈان نیوز کے مطابق ایف آئی آر میں وقار احمد، خرم احمد اور طارق احمد وصی کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ ملزمان میں شامل وقار احمد اور خرم احمد بھائی ہیں اور وہ کینیا میں مبینہ طور پر مقتول ارشد شریف کے میزبان تھے۔
اس سے قبل پاکستانی سپریم کورٹ نے صحافیارشد شریفکے قتل کا مقدمہ منگل کی شام تک درج کر نے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ایف آئی آر کی نقل کل تک عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت بھی کی تھی۔ ارشد شریف کو اکتوبر میں کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے مضافات میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل کے بعد سے سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت صحافتی حلقے اور انسانی حقوق کی نتظیمیں اس واقعے کی اعلی سطحی تحقیقات کا مطالبہ کرتی آئی ہیں۔
ازخود نوٹس کی سماعت
منگل کے روز اس از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کی۔ اس بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
سماعت کے دوران وفاقی سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری خارجہ عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ارشد شریف کے قتل کیانکوائری رپورٹپر بحث کرتے ہوئے کہا کہ اس قتل سے متعلق سوشل میڈیا پر کافی شور ہے اور ناجانےکس کس پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ یہ انکوائری رپورٹ وزیر اعظم نے دیکھنی ہے۔
چیف جسٹس نے ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ پاکستان میں درج نہ کیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک یہ مقدمہ درج نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے کینیا میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے قتل کے حقائق کی چھان بین کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے ارکان کو کینیا سے واپس آئے کافی عرصہ ہو گیا لیکن اس کے باوجود اس کی حتمی رپورٹ ابھی تک عدالت میں جمع نہیں کرائی گئی۔
اٹارنی جنرل نے تحقیقاتی رپورٹ جمع کرانے کے لیے عدالت سے کل (بدھ) تک کی مہلت طلب کی تاہم عدالت نے یہ رپورٹ آج ہی جمع کرانے کا حکم دیا۔
'ٹھوس پیش رفت کی امید کم‘
اس عدالتی کارروائی کی کوریج کرنے والے سینئیر صحافی اور ارشد شریف کے سابق کولیگ مطیع اللہ جان نے کہاکہ پاکستان میں صحافیوں کے قتل اور تشدد کے حوالے سے ریکارڈ دیکھتے ہوئے انہیں اس مقدمے کے کسی منطقی انجام تک پہنچنے کی زیادہ امید نہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''حیات اللہ سے لے کر سلیم شہزاد کے قتل اور پھر مجھ سمیت جن صحافیوں کو اغواکے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں آج تک انصاف نہیں مل سکا، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے تحقیقاتی کمیشنوں یا کمیٹوں میں متاثرہ صحافیوں کو بھی شامل کی جانا چاہیے تاکہ وہ اپنا تجربے کی روشنی میں تحقیقات میں مدد کرکے کسی ٹھوس پیش رفت میں مدد کریں۔‘‘
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ اگر روایتی اہلکاروں پر مشتمل کمیشن یا کمیٹیا ں ہی تشکیل دینی ہیں تو پھر کسی مختلف نتیجے کی توقع رکھنا مشکل ہے۔
ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں ابھی تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہونے سے متعلق مطیع اللہ جان کا کہنا تھا، '' ارشد کو قتل کرنے والوں نے شاید اسی لیے یہ منصوبہ بندی کی تھی کہ اسے بیرون ملک مارا جائے تاکہ حکومتوں کے درمیان رابطے کے لیے طویل سرکاری پروٹوکول میں کبھی اصل بات سامنے نہ آسکے۔ اس لیے سب سے بہتر یہ ہوگا کہ اس پہلو کے گرد تفتیش کی جائے کہ ارشد کو کس نے بیرون ملک جانے کے لیے زور دیا تھا اور پھر اسے کینیا کس نے بھجوایا؟‘‘
کینیا میں کارروائی
منگل کو سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے حکومتی عہدیداروں سے استفسار کیا کہ قتل کے حوالے سے کیا کینیا میں تحقیقات ہو رہی ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ایک صحافی کو مشکوک انداز میں کینیا میں قتل کیا گیا، اس حوالے سے دفتر خارجہ نے اب تک کیا کارروائی کی ہے؟ اس پر سیکرٹری خارجہ نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کینیا کے صدر سے اس متعلق بات کی ہے جبکہ کینیا میں پاکستانی ہائی کمشنر اس حوالے سے متعلقہ حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا اس قتل کا مقدمہ کینیا میں درج ہوا ہے؟ سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں کینیا سے معلومات لے کر عدالت کو آگاہ کریں گے۔ عدالت نے دفتر خارجہ کو کینیا میں تحقیقات اور مقدمے کے اندراج سے متعلق کل تک جواب جمع کرانے کی مہلت دی ہے۔
عدالتی کارروائی پر ردعمل
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے منگل کو کی گئی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''ارشد شریف کی شہادت پر ازخود نوٹس لینا خوش آئند ہے۔ سپریم کورٹ اور جج صاحبان سے عوام کی توقع ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے لیے جو بھی دباؤ ہو اس کے باوجود آئین کی حاکمیت کی خاطر کھڑے ہوں گے اور انسانی حقوق کا تحفظ کریں گے۔‘‘
معروف سیاسیتدا ن اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا، ''ارشد شریف کیس پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس قابل تحسین ہے۔ اس کیس میں بہت سارےچھپے چہرے بےنقاب ہوں گے۔ قوم عمران خان پر حملے اور اعظم سواتی کیس میں بھی سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ 13فراری پارٹیاں عمران خان کو نااہل کرانے کی بجائے الیکشن کی تیاری کریں۔ روس سے تیل کا معاہدہ عام کیا جائے۔‘‘
ش ر⁄ ع ا