سیلابی نقصانات: تقریباﹰایک ہزار ارب روپے
20 اگست 2010اسی طرح کے خیالات کا اظہار ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا ہے کہ سیلاب کے پاکستانی معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سیلاب سے جہاں تیار فصلیں اور لائیو اسٹاک بری طرح متاثر ہوئے ہیں وہیں پر زرعی شعبے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ اگر حکومت نے کوئی سیلاب سر چارج یا آئی ایم ایف کی خواہش پر جنرل سیلز ٹیکس لگانے کی کوشش کی، تو عوام اس کی بھرپور مخالفت کریں گے اور یہ مزاحمت ممکنہ طور پر سول وار میں تبدیل ہو جانے کا خطرہ بھی ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے جہاں مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے والا ہے وہیں غذائی اجناس کی قلت پیدا ہونے کا بھی شدید امکان ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے کہا کہ پاکستان ابھی وزیرستان آپریشن سے متاثرہ افراد کی بحالی کے عمل سے گزر رہا تھا کہ ایک بڑی قدرتی آفت نے اسے آن گھیرا۔ ان کے بقول اس ناگہانی آفت سے پاکستان کو تیرہ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر یا قریب ایک ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
ڈاکٹر شاہد حسن نے کہا کہ عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان پہلے ہی سے اڑتالیس اعشاریہ چھ فیصد غذائی قلت کا شکار ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور کپاس برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن پہلے اگر کپاس کی قریب دو ملین گانٹھیں برآمد ہوتی تھیں تو سوات میں فصلوں کی تباہی کی وجہ سے یہ مقدار بھی کم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے نہ پہلے تیار تھی اور نہ اب ہے۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق غذائی اجناس کی قلت کے بعد مہنگائی کا بدترین طوفان حکمرانوں کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جا سکتا ہے۔ اُن کے بقول غذائی اجناس کی قلت اور عدم دستیابی کے باعث سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ابھی سے پُر تشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں اور انسانی ہلاکتیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
انٹر نیشنل کاٹن ایڈوائزری کمیٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا آٹھ فیصد زیر کاشت رقبہ سیلاب کی نذر ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں پندرہ فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔ اسی دوران پاکستان کے مرکزی بینک نے متاثر ہونے والے چھوٹے کاشت کاروں کے لئے نئے آسان قرضے متعارف کرانے کا منصوبہ بھی بنایا ہے لیکن کپاس کی پیداوار میں کمی سے شاید بچا نہیں جا سکے گا۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے کہا کہ جو رقوم پہلے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونا تھیں، وہ اب سیلابی تباہی کے اثرات کی تلافی پر خرچ کی جائیں گی۔
رپورٹ: رفعت سعید
ادارت: عصمت جبیں