سی پیک اتھارٹی کیوں ختم کی جا رہی ہے؟
18 اگست 2022وزیر اعظم شہباز شریف کے سی پیک اتھارٹی ختم کرنے کی منظوری کے اعلان کو چین کی رضامندی سے مشروط کیا گیا ہے۔ حکومتی حلقے دعوٰی کرتے ہیں کہ اس اتھارٹی کو سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبوں میں بہتری کے لیے عمل میں لایا گیا تھا تاہم اس کے قیام کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔
اتھارٹی ختم کرنے کا مقصد سی پیک روک بیک کرنا نہیں
منصوبہ بندی اور ترقی کے وزیر احسن اقبال نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے اتھارٹی کے خاتمے سے متعلق خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ضرورری ہے کہ اتھارٹی کو تحلیل کر دیا جائے، ''تاہم وزیر اعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ اس اقدام سے پہلے چین کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ اسٹریٹجک اتحادی کو یہ تاثر نہ ملے کہ پاکستان سی پیک کو رول بیک کر رہا ہے۔ جب چینی حکام اپنی رضامندی دیں گے تو سی پیک اتھارٹی ایکٹ کو منسوخ کر دیا جائے گا۔‘‘
احسن اقبال نے مزید کہا کہ ماضی میں اس کے نام کا غلط استعمال ایسے لوگوں کو بے اثر کرنے کے لیے کیا گیا تھا، جو فوجی تسلط والی اتھارٹی کے حق میں نہیں تھے، ''سی پیک اتھارٹی کو ختم کرنے کا فیصلہ مسلم لیگ ن کی پرانی پالیسی کے مطابق ہے جو کبھی بھی متوازی سیٹ اپ کے حق میں نہیں تھی۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی حکومت کو اتھارٹی قائم کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ تاہم یہ بڑی حد تک غیر فعال رہی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ فیصلہ سازی کا سلسلہ ٹوٹنے کی وجہ سے سی پیک اتھارٹی منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد میں رکاوٹ بن گئی ہے،''اب وزارت منصوبہ بندی اور ترقی سہولت کار کا کردار ادا کرے گی۔ حکومت منصوبوں پر پرانے ادارہ جاتی انتظامات کو بحال کرے گی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ہچکچاتے ہوئے اتھارٹی کو نافذ کیا تھا مگر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے استعفیٰ کے بعد کسی دوسرے شخص کو اتھارٹی کا چیئرمین تعینات نہیں کیا۔
احسن اقبال کی بھیجی گئی سمری ہولڈ رکھی ہوئی تھی
سی پیک اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر آپریشنز خالد منظور نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے اتھارٹی کو ختم کرنے کی سمری بھیج گئی تھی۔ خالد منصور کہتے ہیں، ''اتھارٹی سرمایہ کاروں کو منسٹری میں دھکے کھانے سے بچانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتی تھی۔‘‘
چین سی پیک پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے
چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے حوالے سے نجی ہوٹل میں منعقدہ سیمنا سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں متعین چین کے سفیر نوگ رونگ نے کہا کہ چین سی پیک کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا، "سی پیک دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا اہم ذریعہ ہے، جس کے تحت توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور خطے میں خوشحالی کا نیا راستہ کھلے گا۔ چینی بینک منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔‘‘
جے سی سی اجلاس میں مخصوص شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
ذرائع کے مطابق چین سی پیک کے حوالے سے پاکستان کے طریقہ کار کو ان کا اندرونی معاملہ سمجھتا ہے اور چینی حکومت اس حوالے سے مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ اسلام آباد حکام کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت نے چین سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹیکس پالیسوں میں تبدیلی کی، جس کی وجہ سے سی پیک منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے۔
پاکستانی حکومت سی پیک منصوبوں پر پیش رفت اور مشترکہ تعاون کمیٹی (جے سی سی) کے اگلے اجلاس کی انعقاد کی کوششیں کر رہی تھی لیکن چینی حکام موجودہ حکومت کی سی پیک میں وابستگی جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جولائی میں ہونے والے جوائنٹ ورکنگ گروپ کے اجلاس میں دونوں جانب سے دس مخصوصی شعبوں سے متعلق تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا تھا۔
سی پیک اتھارٹی کب قائم ہوئی؟
سی پیک اتھارٹی سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں سن 2020 میں اتنے بڑے اقتصادی منصوبت کو چلانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ سی پیک اتھارٹی کا پہلا چئیرمین جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو بنایا گیا بعض سیاسی حلقوں کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ صرف ایک ریٹائرڈ جنرل کو فائدہ پہنچانے کےلیے قائم کیا گیا حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اگر ادارہ علیحدہ بنانے کی بجائے اسے پلاننگ کمیشن کے ذریعے چلایا جاتا تو اس منصوبے پر اتھارٹی کے قیام کے اخراجات کا بوجھ نہیں پڑتا۔
یہی وجہ ہے کہ جنرل عاصم سلیم باجودہ کے اس اتھارٹی کا عہدہ سنبھالتے ہی اسکینڈل اور تنازعات نے جنم لینا شروع کر دیا، جس کے بعد وہ اس عہدے سے ہٹ گئے ان کے بعد خالد منظور کو جو اینگرو کے کارپوریٹ سیکٹر کے سربراہ تھے انہیں سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کرد یا گیا مگر عمران خان کے اقتدار کے خاتمے پر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔