شامی دستوں کے حملے، جرمن امداد سے بنے طبی مراکز بھی زد میں
23 اگست 2019اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق شامی صوبے ادلب میں دمشق حکومت کی فوج کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں اور وہاں جاری جھڑپوں میں اپریل کے اواخر سے اب تک سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
برلن میں جرمنی کی دو وفاقی وزارتوں کی طرف سے جمعہ تیئیس اگست کو بتایا گیا کہ شمال مغربی شام میں ادلب کے علاقے پر قبضے کے لیے دمشق حکومت کے دستوں نے اپنی جو پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے، اس میں کئی ایسی طبی اور انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے قائم کی گئی تنصیبات کو بھی دانستہ طور پر نشانہ بنایا گیا، جن کے لیے رقوم جرمنی نے فراہم کی تھیں۔
وفاقی دارالحکومت برلن میں جرمن وزرات برائے ترقیاتی امداد کی طرف سے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا گیا کہ ادلب میں عسکری کارروائیوں کے دوران اپریل سے اب تک کم از کم چھ ایسی طبی تنصیبات اور مراکز کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا وہ مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں، جن کے لیے مالی وسائل جرمنی نے مہیا کیے تھے۔
اس کے علاوہ 'وائٹ ہیلمٹس‘ نامی ایک ریسکیو تنظیم کے بارہ مراکز اور چار ایمبولنسیں بھی شامی حکومتی دستوں کی طرف سے ہدف بنا کر کیے جانے والے فضائی حملوں کی زد میں آ گئے۔ برسوں سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں جرمنی کی طرف سے اس امدادی تنظیم کی بھی مالی مدد کی جاتی ہے۔
جرمنی کی دو وفاقی وزارتوں کے حکام کی طرف سے مہیا کردہ معلومات کے مطابق ان طبی اور امدادی مراکز پر کیے گئے حملوں میں متعدد افراد ہلاک بھی ہو گئے، جن میں عام شامی شہری بھی شامل تھے اور ان اداروں کی مدد کرنے والی دیگر امدادی تنظیموں کے کارکن بھی۔
شامی باغیوں کا آخری بڑا گڑھ
شام میں اسد حکومت کے خلاف مظاہروں کے ساتھ 2011ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران اب ادلب کا شہر اور اس کا نواحی علاقہ ہی وہ واحد جگہ ہے، جسے شامی باغیوں کا آخری بڑا گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔ ادلب اور اس کے مضافات پر اپنے دوبارہ حتمی قبضے کے لیے اسد حکومت کے دستوں نے روسی فضائیہ کی مدد سے ایک بڑا آپریشن اپریل کے مہینے میں شروع کیا تھا اور وہاں مسلسل خونریزی اور ہلاکتوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
اسی عسکری کارروائی کی وجہ سے وہ فائر بندی ڈیل بھی ناکام ہو چکی ہے، جو گزشتہ برس ستمبر میں روس اور ترکی کے مابین طے پائی تھی اور جس کا مقصد ادلب میں ایک غیر فوجی خطے کا قیام تھا۔ شام کی خانہ جنگی میں روس اپنے قریبی اتحادی اور ملکی صدر بشارالاسد کی عسکری حمایت کر رہا ہے تاکہ وہ ملک میں باغیوں کو شکست دے سکیں۔ اس کے برعکس ترکی شامی باغیوں کی طرف داری کرتا ہے، جس کے فوجیوں نے ادلب میں اپنی کئی عسکری چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں۔
م م / ع ا / ڈی پی اے