شامی مہاجرین کی امداد کے موضوع پر برلن کانفرنس کا انعقاد
28 اکتوبر 2014کانفرنس سے ایک روز پہلے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ برلن کانفرنس کے ذریعے بین الاقوامی برادری شامی مہاجرین کے لیے ایک ٹھوس پیغام دے گی۔
شام میں جاری طویل خانہ جنگی کا شکار ہو کر نقل مکانی کرنے والے بیش تر افراد لبنان، اردن اور ترکی کے سرحدی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے مندوبین کا برلن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شامی مہاجرین کو پناہ دینے کی ان کی استطاعت کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ اردن کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے لیے رہایش، اسکولوں، ہسپتالوں اور صاف پانی کے ذرائع انتہائی کم ہیں۔ ترکی اور لبنان نے بھی اس کانفرنس میں انہی تحفظات کا اظہار کیا۔
اقوام متحدہ کے شعبہ برائے مہاجرین کے سربراہ کا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شام کا انسانی حقوق کا بحران اس قدر سنگین ہے کہ اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔
جرمنی نے قریب ستر ہزار شامیوں کو پناہ دی ہوئی ہے اور وہ ان کی امداد کے لیے سالانہ ساڑھے چھ سو ملین یورو کی رقم خرچ کر رہا ہے۔ کانفرنس میں جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام میں انتہا پسند تنظیم ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کی بہیمانہ کارروائیاں اس وقت تک نہیں رکیں گی جب تک کہ شامی مہاجرین کے مسئلے کا حل نہیں ڈھونڈ لیا جاتا۔
واضح رہے کہ ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ شام اور عراق کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکی ہے اور وہاں اس نے اپنی طرز کا سخت گیر شرعی نظام نافذ کر دیا ہے۔ یہ تنظیم اقلیتوں اور مخالفین کے قتل عام میں بھی ملوث رہی ہے۔
اشٹائن مائر نے اردن، لبنان اور ترکی کی تعریف کی اور کہا کہ شام کے ان پڑوسی ممالک نے تیس لاکھ مہاجرین کو پناہ دی ہوئی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ صرف بنیادی ضروریات فراہم کرنا ناکافی ہے۔ ’’نا امیدی لوگوں کو شدت پسندی کے راستے پر دھکیل دیتی ہے۔ یہ ایک بڑا خطرہ ہے کیوں کہ پناہ گزینوں میں سے آدھے بچے اور نوجوان ہیں۔‘‘
اس موقع پر اردن کے نصر جدہ کا کہنا تھا، ’’ہم ایک ایسی سطح کو چھو رہے ہیں جس میں شامی مہاجرین کی امداد کے لیے ہماری استطاعت کی جانچ ہو رہی ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان کا ملک اس وقت پندرہ لاکھ شامیوں کو پناہ دیے ہوئے ہے۔