1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی کوريا کے خلاف تازہ پابنديوں کا اعلان

عاصم سلیم
12 ستمبر 2017

سلامتی کونسل نے شمالی کوريا کے متنازعہ جوہری و ميزائل پروگرام اور مسلسل اشتعال انگيزی کے رد عمل ميں پيونگ يانگ کے خلاف تازہ پابنديوں کی منظوری دے دی ہے۔ ايشيا ميں امريکا کے اتحادی ممالک نے اس پيش رفت کا خير مقدم کيا ہے۔

https://p.dw.com/p/2jlj7
New York UN Sicherheitsrat Nordkorea Sitzung
تصویر: Getty Images/AFP/K. Betancur

اقوام متحدہ کی پندرہ رکنی سلامتی کونسل نے شمالی کوريا کے خلاف تازہ پابنديوں کی متفقہ طور پر منظوری پير گيارہ ستمبر کے روز دے دی۔ نئی پابنديوں ميں ٹيکسٹائل کی برآمدات اور ايندھن کی سپلائی کو نشانہ بنايا گيا ہے۔ پيونگ يانگ کے ليے مقابلتاً نرم رويہ رکھنے والے ممالک روس اور چين کی حمايت حاصل کرنے کے ليے ابتدائی مسودے ميں نرمی کے بعد اسے سلامتی کونسل ميں پيش کيا گيا، جسے متفقہ طور پر منظور کر ليا گيا۔ يہ سن 2006 کے بعد سے شمالی کوريا کے خلاف منظور ہونے والی نويں ايسی قرارداد ہے، جسے ارکان نے متفقہ طور پر منظور کيا۔

اقوام متحدہ کے ليے امريکی سفير نِکی ہيلی نے اس پيش رفت کے بعد کہا کہ واشنگٹن حکومت شمالی کوريا کے خلاف اضافی پابنديوں کے اطلاق سے خوش نہيں اور يہ بھی کہ امريکا جنگ کا خواہاں نہيں ہے۔ ان کے بقول اگر پيونگ يانگ اپنا متنازعہ جوہری و ميزائل پروگرام ترک کر ديتا ہے، تو مستقبل ميں صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ دريں اثناء ايشيا ميں امريکی کے اہم ترين اتحادی ممالک جاپان اور شمالی کوريا نے کہا ہے کہ پيونگ يانگ ان تازہ پابنديوں کے بعد بھی اپنا بيلسٹک ميزائل و جوہری پروگرام ختم کرنے کو تيار نہيں، تو یہ دونوں ممالک شمالی کوريا پر مزيد دباؤ ڈالنے کے ليے بھی تيار ہيں۔ جنوبی کوریا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے شمالی کوریا کے خلاف لگائی گئی نئی پابندیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیونگ یانگ کے لیے معاشی مشکلات اور تنہا رہ جانے سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنا جوہری پروگرام ختم کر دے۔ جنوبی کوریا کے صدارتی دفتر کے مطابق شمالی کوریا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بین الاقوامی امن کو چیلنج کرنے کا نتیجہ اس کے خلاف مزید سخت بین الاقوامی پابندیوں کی صورت میں نکلے گا۔

اسی دوران چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے ایک اداریے میں کہا گيا ہے کہ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ شمالی کوریا کو الگ تھلگ کرنے کا سلسلہ روک کر مذاکرات کی میز پر واپس آئے۔ اس اداریے کے مطابق تمام کوششوں کا مقصد فریقین کو مذاکرات کی میز پر واپس لانا ہونا چاہیے تاکہ ان شرائط پر متفق ہوا جا سکے جس سے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو روکا یا اُسے ختم کرنا ممکن ہو سکے۔ چین کا موقف ہے کہ سخت پابندیاں شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو روکنے میں معاون ثابت نہیں ہوں گی۔

پير کو ہونے والی پيش رفت کے بعد اب اقوام متحدہ کی رکن رياستوں پر يہ لازم ہے کہ وہ شمالی کوريا سے ٹيکسٹائل درآمدات روک  ديں۔ اس پيش رفت سے پيونگ يانگ کو يقيناً مالی دھچکا پہنچے گا کيونکہ کوئلے کے بعد ٹيکسٹائل اس ملک کے ليے اہم ترين برآمدات ہيں۔ تازہ پابندیوں میں قدرتی گیس وغیرہ درآمد کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس کمیونسٹ ریاست سے تعلق رکھنے والے ورکرز کو ملازمتیں دینے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کی خواہشات کے برعکس ان پابندیوں میں شمالی کوریا پر تیل کی درآمد یا ملکی حکومت اور اس کے سربراہ کِم جونگ ان کے بین الاقوامی اثاثوں کو منجمد کرنا شامل نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید