شمال مغربی شام میں سوا دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر
27 دسمبر 2019اقوام متحدہ نے جمعہ ستائیس دسمبر کو بتایا کہ بارہ تا پچیس دسمبر کے درمیانی عرصے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ادلب سے نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔ جنوبی ادلب میں واقع معرة النعمان نامی شہر بالکل ویران اور خالی ہو چکا ہے۔ اس علاقے کو شام میں اپوزیشن کا آخری گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔
شامی اور روسی فورسز اس علاقے میں عسکری کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے انسانی بحرانی صورتحال کے خطرات بڑھ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ کار ادارے OCHA کے مطابق بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
صدر بشار الاسد کی حامی افواج نے جنوبی و مشرقی ادلب کے کئی علاقوں پر شدید بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔ پچھلے ہفتے سے جاری زمينی کارروائی ميں کئی دیہات کو شدت پسندوں کے قبضے سے چھڑايا جا چکا ہے۔ ادلب میں تمام تر مشکلات کے باوجود شدت پسند مسلح باغی دمشق حکومت کے ساتھ محاذ آرائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ادلب شمال مغربی شام کا وہ علاقہ ہے، جہاں اب بھی شامی باغی جنگی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ دمشق حکومت نے اس علاقے پر اپنی عمل داری بحال کرنے کے لیے حملے تیز کر رکھے ہیں۔ حکومتی فورسز نے ادلب کے گردا گرد واقع چھوٹے بڑے علاقوں پر قبضے کا سلسلہ رواں برس تیس اپریل سے شروع کیا تھا۔ ایک اور صوبے حما میں موجود باغیوں کے گرد بھی اسد حکومت کی فوج نے گھیرا تنگ کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ادلب میں گزشتہ چند ہفتوں سے جاری حکومتی فورسز کے فضائی حملوں کے باعث عام شہریوں نے نقل مکانی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سن 2019 کے دسمبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتوں کے دوران حملوں میں شدت پیدا ہونے کے بعد عام لوگوں نے گھر بار چھوڑنے میں عافیت سمجھی اور بال بچوں کو لے کر محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونا شروع کر دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ پچیس دسمبر کو اپنے ٹویٹ میں انتباہ کیا تھا، ''روس، شام اور ایران صوبہ ادلب میں ہزاروں سویلین کو مار رہے ہیں، وہ اس سے باز آ جائیں‘‘۔ ترکی نے بھی ماسکو حکومت سے کہا ہے کہ وہ ادلب میں حملوں کا سلسلہ روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
ع ح ⁄ ک م (ڈی پی اے)