1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہباز بھٹی اور سلمان تاثیر کا قتل، پاکستان میں آزاد خیال حلقے خوف زدہ

2 مارچ 2011

توہین رسالت کے متنازعہ قانون میں ترامیم کی حمایت کرنے پر پہلے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیرکو قتل کیا گیا اور اب وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی اس کا نشانہ بنے۔ پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/10Rog
توہین رسالت کے قانون میں ترامیم کی حمایت کرنے کی سزاسلمان تاثیر کے بعد اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو بھی بھگتنا پڑیتصویر: AP

وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو توہین رسالت کے متنازعہ قانون میں ترامیم کی حمایت کرنے پر قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب سے چند دن قبل ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بھی انہوں نے اس قانون میں ترامیم کی حمایت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا ’’جن افراد کے خلاف توہین رسالت کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں ان میں محض اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہی شامل نہیں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمے مذہبی یا ذاتی رنجشوں کی بناء پر قائم کیے گئے ہیں۔ میرا اس بات پر مکمل یقین ہے کہ انتہا پسند اس قانون کواپنی ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر تے ہیں‘‘۔

اسی طرح سلمان تاثیر کی بات کی جائے تو انہوں نے ایسا کیا کیا تھا، جس سے پاکستان کے مذہبی حلقے بھڑک اٹھے تھے؟ اورکیا وجہ ہے کہ ان کے قاتل ممتاز قادری کو پیغمبر اسلام کا سپاہی قرار دیا جا رہا ہے؟ ممتاز قادری اور مذہبی افراد کی نظر میں سلمان تاثیر توہین رسالت کے مرتکب تھے۔ قادری کی ذمہ داری سلمان تاثیر کی حفاظت کرنا تھی لیکن اسی نے انہی کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ پاکستان میں بہت سے افراد قادری کے اس فعل پر فخر کرتے ہیں۔

Religiöse Symbole für Islam, Christentum und Judentum
پاکستانی معاشرے میں دوسرے مذاہب کے لیے عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہےتصویر: picture-alliance / Godong

پاکستانی حکومت کو آزاد خیال تصورکیا جاتا ہے تاہم فی الحال ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا جس سے اسے آزاد خیال سمجھا جائے۔ ہائنرش بول فاؤنڈیشن سے منسلک برییٹا پیٹرسن کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیرکے قتل سے نہ صرف ایک معتدل سیاست دان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا ہے بلکہ تمام لبرل افراد کے منہ بند کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔’’میرے خیال میں یہ ملک اسلامی جماعتوں کے زیر اثر آ سکتا ہے۔ اس وقت ایک ایسی نسل پروان چڑھ چکی ہے، جسے اسکول میں پڑوسی ملک بھارت کے خلاف نفرت سکھائی گئی ہے اور اسلام کا صرف ایک خاص رخ دکھایا گیا ہے۔ یہ نسل اب مختلف عہدوں پر فائز ہے۔ وہ افراد، جو پاکستان کو آزاد خیال ملک کے طور پر جانتے تھے، ان کی عمریں اس وقت پچاس اور ساٹھ کے لگ بھگ ہیں۔ یہ افراد جلد ہی اپنے عہدوں سے ریٹائرڈ ہو جائیں گے‘‘۔

پاکستان میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیرکو قتل کیے جانے کے بعد آزاد خیال حلقوں کو گھٹن اور ناامیدی کے ماحول کا سامنا تھا۔ اب وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کے قتل نے تو ملک کے لبرل طبقے کے لیے مزید خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ ایک جانب مغربی ممالک پریشان ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں انہیں اس ملک کی ضرورت بھی ہے۔ پاکستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے قنوطی ماہرین کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں طالبان کو حکومت پر قابض ہونے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرنا پڑے گی کیونکہ معاشرے کا مزاج ویسے ہی انتہاپسند ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نہ تو پاکستان کے لیے سود مند ہے اور نہ ہی افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کے لیے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : شامل شمس