شہباز بھٹی اور سلمان تاثیر کا قتل، پاکستان میں آزاد خیال حلقے خوف زدہ
2 مارچ 2011وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو توہین رسالت کے متنازعہ قانون میں ترامیم کی حمایت کرنے پر قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب سے چند دن قبل ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بھی انہوں نے اس قانون میں ترامیم کی حمایت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا ’’جن افراد کے خلاف توہین رسالت کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں ان میں محض اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہی شامل نہیں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمے مذہبی یا ذاتی رنجشوں کی بناء پر قائم کیے گئے ہیں۔ میرا اس بات پر مکمل یقین ہے کہ انتہا پسند اس قانون کواپنی ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر تے ہیں‘‘۔
اسی طرح سلمان تاثیر کی بات کی جائے تو انہوں نے ایسا کیا کیا تھا، جس سے پاکستان کے مذہبی حلقے بھڑک اٹھے تھے؟ اورکیا وجہ ہے کہ ان کے قاتل ممتاز قادری کو پیغمبر اسلام کا سپاہی قرار دیا جا رہا ہے؟ ممتاز قادری اور مذہبی افراد کی نظر میں سلمان تاثیر توہین رسالت کے مرتکب تھے۔ قادری کی ذمہ داری سلمان تاثیر کی حفاظت کرنا تھی لیکن اسی نے انہی کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ پاکستان میں بہت سے افراد قادری کے اس فعل پر فخر کرتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کو آزاد خیال تصورکیا جاتا ہے تاہم فی الحال ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا جس سے اسے آزاد خیال سمجھا جائے۔ ہائنرش بول فاؤنڈیشن سے منسلک برییٹا پیٹرسن کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیرکے قتل سے نہ صرف ایک معتدل سیاست دان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا ہے بلکہ تمام لبرل افراد کے منہ بند کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔’’میرے خیال میں یہ ملک اسلامی جماعتوں کے زیر اثر آ سکتا ہے۔ اس وقت ایک ایسی نسل پروان چڑھ چکی ہے، جسے اسکول میں پڑوسی ملک بھارت کے خلاف نفرت سکھائی گئی ہے اور اسلام کا صرف ایک خاص رخ دکھایا گیا ہے۔ یہ نسل اب مختلف عہدوں پر فائز ہے۔ وہ افراد، جو پاکستان کو آزاد خیال ملک کے طور پر جانتے تھے، ان کی عمریں اس وقت پچاس اور ساٹھ کے لگ بھگ ہیں۔ یہ افراد جلد ہی اپنے عہدوں سے ریٹائرڈ ہو جائیں گے‘‘۔
پاکستان میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیرکو قتل کیے جانے کے بعد آزاد خیال حلقوں کو گھٹن اور ناامیدی کے ماحول کا سامنا تھا۔ اب وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کے قتل نے تو ملک کے لبرل طبقے کے لیے مزید خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ ایک جانب مغربی ممالک پریشان ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں انہیں اس ملک کی ضرورت بھی ہے۔ پاکستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے قنوطی ماہرین کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں طالبان کو حکومت پر قابض ہونے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرنا پڑے گی کیونکہ معاشرے کا مزاج ویسے ہی انتہاپسند ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نہ تو پاکستان کے لیے سود مند ہے اور نہ ہی افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کے لیے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : شامل شمس