ن لیگ کی شکست کا مطلب کیا ہے اور اب آگے کیا ہو سکتا ہے؟
18 جولائی 2022تجزیہ نگاروں کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے، پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب کے ضمنی الیکشن کی بیس نشستوں میں سے پندرہ پر کامیابی حاصل کر لی۔ اس طرح پنجاب کے وزیر اعلی حمزہ شہباز کی حکومت اب اگلے چند دنوں کی مہمان ہے اور پی ٹی آئی کے اتحادی چوہدری پرویز الہی کے وزیر اعلی پنجاب بننے میں بظاہر کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما ملک احمد خان نے لاہور میں صحافیوں کو بتایا کہ ہمارے پاس عددی برتری نہیں رہی۔ "پنجاب ہمارے ہاتھ سے جا رہا ہے۔ ہم عوام کی رائے کا احترام کریں گے۔"
رات کے آخری پہر ملنے والے نتائج کے مطابق ان ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو پندرہ اور پاکستان مسلم لیگ نون کو چار نشستیں ملی ہیں جبکہ ایک نشست پر آزاد امیدوار منتخب ہوا ہے۔
نواز شریف کے شہر لاہور میں صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی تین سیٹوں پر کامیاب ٹھہری ہے جبکہ نون لیگ کے حصے میں یہاں صرف ایک سیٹ آئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو جن شہروں میں کامیابی ملی ہے ان میں لاہور کی تین اور جھنگ کی دو نشستوں کے علاوہ ملتان، خوشاب، شیخوپورہ، فیصل آباد، ساہیوال، لودھراں، مظفر گڑھ، بھکر ، لییہ اور ڈیرہ غازی خان کی ایک ایک نشست شامل ہے۔ جبکہ نون لیگ نے بہاولنگر، لاہور، ، راوالپنڈی اور مظفرگڑھ سے ایک ایک نشست حاصل کی ہے۔ مجموعی طور پر ان بیس حلقوں میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح پچاس فی صد کے قریب رہی۔
نون لیگ کا رد عمل
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کرنے چاہییں ۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے، سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، دل بڑا کرنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاں جہاں کمزوریاں ہیں ان کی نشاندہی کرکے انھیں دور کرنےکے لیے محنت کرنی چاہیے، انشاءاللّہ خیر ہوگی۔
مسلم لیگ نون کے ایک اور رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ وہ عوام کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ ’’اصل میں ہمارا مقابلہ تحریک انصاف سے نہیں مہنگائی سے تھا۔‘‘
عمران خان نے کیا کہا؟
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا کہ یہاں سے آگے جانے کا واحد رستہ ایک ساکھ کے حامل الیکشن کمیشن کی زیرِنگرانی آزادانہ وشفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ ان کے مطابق کوئی بھی دوسرا راستہ محض سیاسی غیر یقینی میں اضافے اور مزید معاشی انتشار کی جانب لے کر جائے گا۔
عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ میں مسلم لیگ نواز کے امیدواروں ہی کو نہیں بلکہ پوری ریاستی مشینری خصوصاً پولیس کے جبر و ستم اور مکمل طور پر ایک متعصب الیکشن کمیشن کو شکست دینے پر پاکستان تحریک انصاف کے اپنے کارکنان اور پنجاب کے ووٹرز کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں'۔
اب انتخابات کو نہیں ٹالا جا سکتا
ان نتائج کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات نے یہ بات بتا دی ہے کہ اب عام انتخابات کو مزید ٹالا نہیں جا سکتا۔ ان کے مطابق ان ضمنی انتخابات میں عمران خان کے بیانیے کو عوام کی طرف سے زوردار تائید ملی ہے۔
پی ٹی آئی نے نہ صرف اپنے منحرفین کو شکست دی ہے بلکہ آزاد امیدواروں کو بھی ہرایا ہے۔ لاہور شہر، وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب سب جگہ سے عوام نے پی ٹی آئی کے لئے اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
امتیاز عالم کے خیال میں مسلم لیگ نون نے اپنی شکست کو تسلیم کرکے اچھی روایت قائم کی ہے۔ اب حمزہ شہباز کو وزارت اعلی سے مستعفی ہونا چاہیے اور نئے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے الیکشن کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اگر شہباز شریف نئے انتخابات پر آمادگی ظاہر کر دیں تو پھر عمران خان کو حکومت سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔
تجزیہ نگاروں کی شکست
ایک سوال کے جواب میں امتیاز عالم نے بتایا کہ ان ضنمی انتخابات کے دوران تقریبا سارے ہی تجزیہ نگاروں کے اندازے غلط نکلے۔ وہ جس پارٹی کو پانچ سے زیادہ نشستیں نہیں دے رہے تھے اس نے پندرہ نشستیں حاصل کر لیں۔ اصل میں وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے تجزیہ نگار عوام کی نبض کو جاننے کی سعی نہیں کرتے۔ وہ فیلڈ میں نہیں جاتے اور اوپر اوپر سے حالات و واقعات کا جائزہ لے کر اپنی رائے بنا لیتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے تسلیم کیا کہ اتنے بڑے اپ سیٹ کی توقع وہ خود بھی نہیں کر رہے تھے۔
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اب کہاں کھڑی ہے؟
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اب کمزور ہو چکی ہے اور ایک طرح سے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اب یہ سیاست دانوں کا کام ہے کہ وہ عقلمندی سے کام لیتے ہوئے سیاسی فیصلے خود کریں اور اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر رولز آف گیم تیار کریں اور اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر بنیادی فیصلے ہمارے سیاسی رہنماوں نے کر لیے اور نگران حکومت قائم ہو گئی تو پھر ملک میں عدم استحکام پیدا نہیں ہوگا۔ ’’آئی ایم ایف کے کاغزات پر دستخط نگران حکومت بھی کر سکتی ہے۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اب نومبر میں ہونے والا فیصلہ عمران خان کریں گے تو ان کا کہنا تھا کہ اب نومبر والا فیصلہ ادارہ جاتی فیصلہ ہو گا اور "ہو سکتا ہے ان کا اعلان ہم نگران حکومت سے سنیں۔"
اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان میں سویلین بالادستی کے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے؟ امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ ابھی ایسا کچھ نہیں، "اس میں ابھی لمبا وقت لگے گا۔ ایک ارتقائی عمل کے ذریعے عوامی شعور میں اضافے کے بعد بھی معاشروں کا پاور سٹرکچر ٹھیک ہونے میں وقت لیتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو جمہوری بالا دستی کے لئے ضروری قانون سازی کرنی چاہیے۔"
نون لیگ کیوں ہاری؟
پاکستان کے ایک قومی روزنامے میں کالم لکھنے والے ممتاز تجزیہ نگار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نون لیگ کو اس کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی لے ڈوبی، ان کے مطابق نون لیگ والے سمجھ رہے تھے کہ وہ تو اپوزیشن میں بھی ضمنی الیکشن جیتتے رہے ہیں اب تو ان کی اپنی حکومت ہے۔
ان کے بقول منحرفین کے چھوڑ جانے اور پھر پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن لڑنے پر پی ٹی آئی کے ورکروں کو بہت غصہ تھا اور وہ خم ٹھوک کر پورے جوش اور جذبے کے ساتھ انتخابی مہم میں دن رات متحرک رہے لیکن دوسری طرف مسلم لیگ نون کے روایتی کارکن اپنے حلقوں میں ان لوگوں کو ٹکٹ ملنے پر ناراض تھے جنہوں نے انہیں پچھلے عام انتخابات میں ہرایا تھا۔ وہ مریم نواز کے جلسوں میں تو آئے لیکن انہوں نے ووٹروں کو متحرک نہیں کیا۔‘‘
’’ پی ٹی آئی کی ایک کامیابی یہ بھی ہے کہ اس نے پوری انتخابی مہم میں اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت کی ناکامیوں پر فوکس نہیں ہونے دیا بلکہ وہ عالمی شازش اور مخالفوں کی کرپشن کے گرد ہی باتیں کرتے رہے۔ ‘‘
مستقبل کا منظرنامہ
خالد رسول کہتے ہیں کہ پنجاب ملنے کے بعد پی ٹی آئی کے لئے اسلام آباد پر یلغار کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ یہ صورت حال انیس سو اٹھاسی والی ہونے جا رہی ہے جب مرکز میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی اور پنجاب میں وزیراعلی نواز شریف تھے۔ ان کی محاذ آرائی دونوں حکومتوں کو لے ڈوبی تھی۔ ’’ اگر آنے والے دنوں میں محاذ آرائی بڑھی تو اس سے سیاسی تناو میں اضافہ ہو گا اور معاشی استحکام کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔‘‘پی ٹی آئی کا بیانیہ بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئے مشکلات کا باعث بنتا رہا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ پی ٹی آئی زمینی حقائق کا ادراک کرتی ہے یا کہ نہیں’’