طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، نواز شریف
1 نومبر 2013لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں معصوم لوگوں اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کو روکنے کی کوشش کے طور پر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے۔ بیان کے مطابق، ’’پاکستانی وزیر اعظم نے ان (برطانوی نائب وزیر اعظم ) کو بتایا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے جا چکے ہیں۔‘‘
طالبان کے مختلف گروہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کی غرض سے اپنی پرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ برسوں سے جاری اس تشدد کے خاتمے کے لیے اسلام آباد کی کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ طے کر لیا جائے تاہم القاعدہ سے وابستہ عسکریت پسندوں نے ایسے مذاکرات کا حصہ بننے سے انکار کر رکھا ہے۔ پاکستانی طالبان کے متعدد گروہوں نے ماضی میں یہ بھی کہا تھا کہ جب تک ان کے ساتھیوں کو رہا نہیں کیا جاتا، ڈرون حملے نہیں روکے جاتے اور فوج ان کے علاقوں سے نکل نہیں جاتی، تب تک مذاکرات شروع نہیں کیے جائیں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورہء برطانیہ کے دوران جمعرات کو نائب برطانوی وزیراعظم نک کلیگ کے ساتھ اپنی ملاقات میں انہیں مطلع کیا کہ طالبان کے ساتھ قیام امن کی کوششیں جاری ہیں۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ وہ پر امید اور دعا گو ہیں کہ یہ مذاکرات آئینی فریم ورک کے تحت ہوں۔
پاکستانی ہائی کمیشن کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے نک کلیگ بتایا ہے کہ اسلام آباد حکومت انسداد دہشت گردی کی صلاحیتوں میں بھی بہتری پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس ملاقات میں نواز شریف اور نک کلیگ کے مابین بھارت کے ساتھ باہمی تعلقات، توانائی کی عالمی مارکیٹ اور پاکستان میں اقتصادی اصلاحات پر بھی تبادلہء خیال کیا گیا۔
ادھر اپوزیشن پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ نہیں روکا جاتا تو افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کی سپلائی بند کر دی جائے گی۔ جمعرات کے دن لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عمران خان نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ نیٹو سپلائی روٹ کو بند کر سکتی ہے اور اس حوالے سے ان کے الفاظ کو سنجیدگی سے لیا جائے۔