1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان کو افغان حکام کی پشت پناہی !

شکور رحیم، اسلام آباد31 اکتوبر 2013

پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجودگی سے متعلق خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ افغان سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1A9g2
افغانستان میں ایک ہفتہ قبل حراست میں لیا جانے والا پاکستانی طالبان کمانڈر لطیف محسود اب امریکا کی تحویل میں ہے
افغانستان میں ایک ہفتہ قبل حراست میں لیا جانے والا پاکستانی طالبان کمانڈر لطیف محسود اب امریکا کی تحویل میں ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo

امریکی اخبار نیویارک نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں چند ہفتے پہلے امریکی فوجی پاکستانی طالبان لیڈر لطیف محسود کو افغان سکیورٹی اہلکاروں سے چھین کر بگرام ایئر بیس پر لے گئے تھے۔ اس کارروائی کے وقت افغان خفیہ اہلکار بھی لطیف محسود کے ساتھ تھے۔

29 اکتوبر کو لندن میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شریک پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئی
29 اکتوبر کو لندن میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شریک پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئیتصویر: RICHARD POHLE/AFP/Getty Images

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس پاکستانی طالبان کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی حکومت خصوصاً فوج سے انتقام لینا چاہتی تھی۔ امریکی اخبار کی اس رپورٹ پر ڈی ڈبلیو کی جانب سے تحریری طور پر بھجوائے گئے سوال پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری نے کہا کہ "ہم اس معاملے پر امریکی اور افغان حکام سے رابطے میں ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجودگی کا معاملہ پاکستان کے لیے باعث تشویش ہےاور یہ موضوع افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کا حصہ ہے۔"

پاکستانی ارکان پارلیمنٹ نے بھی ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو مبینہ طور پر افغان حکام کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک کا کہنا ہے کہ پہلے بھی بھارتی اور افغان حکام کی پاکستان مخالف مشترکہ سرگرمیوں کی اطلاعات تھیں۔ اب ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کرے۔ انہوں نے کہا:’’طالبان خواہ افغانستان کے ہوں یا پاکستان کے، ان کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے، پاکستان کے خلاف کام کرنا۔ اگر کوئی ایسی خبر ہے تو میں حکومت پاکستان سے اپیل کروں گا کہ اس کا بیک گراؤنڈ پتہ کیا جانا چاہیے اور اس کے خلاف ایکشن لیا جائے۔‘‘

افغان حکام بھی گزشتہ کئی سا لوں سے پاکستان پر الزام لگاتے آئے ہیں کہ وہ افغانستان میں اپنے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے طالبان شدت پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی حکام بھی متعدد بار پاکستان پر افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کی مدد کرنے کا الزام لگا چکے ہیں تاہم پاکستانی حکومت ان الزامات کو ہمیشہ مسترد کرتی آئی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک
پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملکتصویر: DW

پاکستانی ایوان بالا میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین اور جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر طلحہ محمود کا کہنا ہے کہ خطے میں قیام امن کے لیے پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے پر الزام تراشی سے بچنا ہو گا۔

انہوں نے کہا:’’اس میں نقصان ہو رہا ہے، پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے، افغانستان کو۔ ہم دونوں ملکوں کا مفاد ایک ہی ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے پر الزامات لگا کر آنکھ بچائیں گے تو وہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ یہ ان (افغانستان ) کو چاہیے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے لیں۔ اگر ان پر الزم لگ رہا ہے تو اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے ورنہ دونوں ملکوں کے درمیان کنفیوژن بڑھے گا۔‘‘

خیال رہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئی اسلامی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کے لیے لندن میں ہیں۔

ان دونوں راہنماؤں نے منگل کو برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے مشترکہ ملاقات کی تھی، جس میں فریقین نے قیام امن کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں