طالبان کے کنٹرول سے آئی ایس اور القاعدہ کو کتنا فائدہ ہوگا؟
18 اگست 2021افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ہونے والے ہر ایک پیش رفت پر جہاں ایک طرف مغرب گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے وہیں اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس)، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں بھی تازہ ترین پیش رفت کا باریکی سے مشاہدہ کر رہی ہیں۔
برلن میں جرمن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی اور سلامتی امور میں محقق اور دہشت گردی امور کے ماہر گیڈو اسٹین برگ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہمیں یہ توقع رکھنی چاہئے کہ نہ صرف آئی ایس بلکہ القاعدہ اور افغانستان اور پاکستان میں دیگر چھوٹے گروپ بھی مضبوط ہو جائیں گے۔"
اسٹین برگ کا تاہم خیال ہے کہ فی الوقت یہ کہنا تقریباً ناممکن ہے کہ طاقت میں اضافے کا اظہار سب سے پہلا کہاں ہو گا۔”بلاشبہ کچھ علاقے ہیں جہاں جہادی پہلے سے ہی مضبوط ہیں، مثلاً افغانستان میں۔" انہوں نے کہا کہ بالخصوص آئی ایس کی افغانستان شاخ، جسے ولایت خراسان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ماضی میں اسے ختم کرنے کی طالبان کی کوششوں کے باوجود، اب آئی ایس کی ایک طاقت ور شاخ بن چکی ہے۔
ہر ایک دوسرے کے خلاف
اسلامک اسٹیٹ جسے آئی ایس یا آئی ایس آئی ایس اور داعش کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور القاعدہ کے علاوہ مختلف دیگر بین الاقوامی جہادی تنظیموں کا ماضی اور حال پیچیدہ ہے۔
اسٹین برگ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں،”ایک طرف نام نہاد اسلامک اسٹیٹ ہے جو افغانستا ن کے صوبوں میں، کوہ کاف علاقوں میں، افریقہ میں اور یمن میں موجود ہے۔ یہ آئی ایس نہ صرف القاعدہ بلکہ طالبان کے بھی خلاف ہے۔ اور یہ بنیادی اختلافات ہیں۔ اس لیے اگر طالبان افغانستان میں اسلامی امارات قائم کرتی ہے یا دوبارہ اسی طرز کی حکومت کو بحال کرتی ہے جس کا تجربہ ہمیں سن 1996سے سن 2001 کے درمیان ہو چکا ہے، توا س کا مطلب یہ قطعی نہیں ہو گا کہ آئی ایس بھی خود بخود مضبوط ہوجائے گی۔"
طالبان کے بیانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، ترکی
اسٹین برگ تاہم کہتے ہیں کہ اس کے باوجود طالبان کی کامیابی سے دنیا بھر میں جہادیوں، سلفیوں اور اسلام پسندوں کا حوصلہ بلند ہوگا اور اصل مسئلہ یہی ہے، ”انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ امریکیوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ طالبان نے اس چیز کو ثابت بھی کر دیا ہے۔"
پرانی دشمنی کی جگہ نئے اتحاد
اسلامی انتہا پسندوں کے مزید مضبوط ہونے کا ایک اور نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کے درمیان نئے اتحاد قائم ہوں گے۔ انسداد دہشت گردی اور انٹیلیجنس اسٹڈیز کے یورپی مرکز میں دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے جاسم محمد کہتے ہیں،”یمن میں مصالحت کو کوششیں پہلے ہی شروع ہو چکی ہیں، جس کے تحت القاعدہ اور آئی ایس نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہ کرنے کا عہد کیا ہے۔"
جاسم محمد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں بھی طالبان اور القاعدہ کے درمیان 'معاہدہ‘ ہو چکا ہے،”بعض لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد یا گزشتہ دس برسوں کے دوران القاعدہ بہت زیادہ سرگرم نہیں رہا ہے لیکن دستاویزات اور تفتیش سے یہ بالکل واضح ہے کہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات اب بھی پوری طرح قائم ہیں اور القاعدہ طالبان کی مدد کر رہا ہے۔“
افغانستان میں عام معافی، طالبان کا اعلان
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسے مزید 'امن معاہدے‘ دیکھنے کو ملیں گے۔ جاسم محمد کا کہنا تھا،”اگلا معاہدہ طالبان اور آئی ایس آئی ایس کے درمیان ہو سکتا ہے۔ ان کے درمیان یہ معاہدہ ہو سکتا ہے کہ وہ افغانستان کے اندرکسی طرح کی کارروائی نہیں کریں گے بلکہ صرف افغانستان کے باہر ہی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔"
تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ افغانستان، لیبیا اور شام یورپی اور امریکی اہداف پردہشت گردانہ حملوں کی تیاریوں کے لیے ٹھکانے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
نئی نسل زیادہ سیاسی ہے
اس طرح کے معاہدوں کے مدنظر اسٹین برگ ایک اور مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ رہنماوں کی ایک نئی نسل۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”گزشتہ برسوں کے دوران آئی ایس آئی ایس، طالبان اور القاعدہ کے بہت سارے رہنماؤں، جو ایک دوسرے کے دشمن تھے، کی ہلاکت کے بعد ان کی نئی نسل غالباً پرانے تصادم کو اپنے کندھوں پر لے کر چلنا نہیں چاہتی ہے بلکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔"
اسٹین برگ کہتے ہیں کہ سن 2001 کے بعد سے جہادیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے,”وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہے اور پوری دنیا میں پھیل گئے ہیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ سن 2001 میں ان کی تعداد غالباً چند ہزار تھی۔"
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چونکہ آئی ایس آئی ایس مشرق وسطی کی سرحدوں سے بھی آگے تک خلافت قائم کرنا چاہتی ہے اور طالبان افغانستان کے اندرامارت اسلامیہ قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ایسے میں ان کے مابین مفاہمت ہوسکتی ہے۔
افغان طالبان کا کابل پر قبضہ: ’پاکستانی طالبان کے حوصلے ‘
جاسم محمد کہتے ہیں،”سن 2001 سے پہلے کے برخلاف اب یہ لوگ اپنے سیاسی عزائم کے لیے کام کررہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ روس، ایران اور پاکستان میں انہیں مالی امداد فراہم کرنے والوں کے رابطے میں ہیں۔ انہیں اب صرف ایک شدت پسند گروپ کے ساتھ خود کو ایک سیاسی تحریک کے طورپرپیش کرنے کی ضرورت ہو گی۔"
آنے والے چند ہفتے کافی اہم ہوں گے۔ دنیا کی نگاہیں طالبان پر ہوں گی کہ وہ ایک قابل اعتماد اور بین الاقوامی مذاکرات کار کے طورپر خود کو کس طرح پیش کرتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اقو ام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے عالمی برادری سے متحد ہوکر اس امرکو یقینی بنانے کی اپیل کی ہے کہ افغانستان کو ایک بار پھر دہشت گرد تنظیموں کے لیے پلیٹ فارم یا محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دیا جائے۔
(ہولییس جینیفراور محی الدین حسین) / ج ا /ص ز