طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم: ذمہ دار کون؟
23 جنوری 2018اس کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ نے 35 طلبا کے متعلقہ تعلیمی شعبوں اور جماعتوں میں داخلے پر پابندی بھی لگا دی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ پیر کے روز اس وقت پیش آیا، جب یونیورسٹی کے ایک ڈپارٹمنٹ میں طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے ایک فیسٹیول کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔
اس پر دوسری طلبا تنظیمیں بلوچ گروپ اور پختون گروپ نے فیسٹیول کی جاری تیاریوں پر رات گئے مبینہ طور پر دھاوا بول دیا اور ڈپارٹمنٹ میں توڑ پھوڑ کی ۔اگلے دن جوابی کاروائی کے لیےاسلامی جمعیت طلبا تنظیم کے کارکن اکٹھا ہوئے اور رات کو ہونے والے واقعے کے بعد مبینہ طور پر ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان جیسا ملک جس کی نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ، یہاں کی اکثر سیاسی و مذہبی جماعتیں کوشش میں رہتی ہیں کہ نوجوانوں کے اذہان اور رجحان کو اپنے نظریے کی جانب راغب کر سکیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ کسی جامعہ میں لسانی یا صوبائی بنیاد پر تصادم کا واقعہ سامنے آیا ہو۔ اس سے قبل بھی ملک بھر کی جامعات میں ایسے پُر تشدد واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے عدم برداشت کا راستہ اخیار کر رہے ہیں۔
ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے معروف سماجی کارکن جبران ناصر کہتے ہیں کہ جامعات میں طلبا کی گروہی و لسانی تصادم کے پیچھے ایک وجہ اسٹوڈنٹ یونین کا نہ ہونا ہے ، ’’ برداشت کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ کو بات کرنے کا حق دیا جائے یا سننے کا حق دیا جائے اور پھر آگے سے دلائل دیے جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کے بنیادی ستونوں کو برقرار رکھا جائے۔ یہ جو جامعات ہیں، اس میں اس کی بہترین شکل اسٹوڈنٹ یونین ہوتی ہےجو ہم پچھلے تیس سالوں میں نہ بنا سکے نہ بحال کر سکے۔ جب آپ نے الیکشن بند کر دیے، جب طلبہ اپنے منشور، اپنے مینڈیٹ پر سیاست نہیں کر سکتے یا ایک آئیڈیالجی یا بنیادی نظریے پر اکھٹا نہیں ہوتے ، تو یا تو آپ کو اکھٹا رہنے کے لیے مذہب یا مسلک کا سہارا مل جاتا ہے یا پھر زبان و لسایت کا۔ اور پھر الیکشن نہیں ہوتے جس کے بعد آپ کے پاس اپنے طریقے سے کچھ کرنے کے اختیارات نہیں ہوتے۔‘‘
تعلیمی اداروں پر حملے، سب سے زیادہ ہلاکتیں پاکستان میں
پاکستانی تعلیمی اداروں کو شدت پسندی سے کیسے بچایا جائے؟
جبران کے مطابق ایسے واقعات صرف پنجاب یونیورسٹی کا ہی مسئلہ نہیں ہیں بلکہ اور اداروں میں بھی یہی صورتحال ہے،’’ اس کے بعد تو پھر ایک طرح سے رسہ کشی یا مقابلہ بازی شروع ہو جاتی ہے کہ جس کی تعداد زیادہ ہے یا جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے، پتھر ہے یا ڈنڈا ہے، وہ اپنا اپنا بلاک بنا کر بیٹھ جاتے ہیں، اپنے کمرے بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ نے طلبا کو اتنا مجبور کر دیا ہے کہ وہ دھڑوں میں بٹ کر محاظ آرئی میں شامل ہوں کیونکہ جب آپ اسٹوڈنٹ یونین کی اجازت نہیں دیتے تو ان طلبا میں جمہوریت پنپتی ہی نہیں۔ ‘‘
ادارہ برائے صحت و صنفی ترقی نامی ایک غیر سرکاری ادارہ جسے ’’چینج‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، آج کل پنجاب یونیورسٹی میں ’’انسپائرنگ دی فیوچر‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے تحت اساتذہ کو امن کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے تاکہ یہ ہی پیغام اساتذہ کے ذریعے طلبا تک پہنچ سکے۔ اس کے باوجود ایسے واقعات کا سامنے آنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ابھی اس محاذ پر مزید کام کی ضرورت ہے۔
اس ادارے کے سربراہ ممتاز حسین نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تصادم کے حالیہ واقعے میں صوبائی و لسانی رنگ نظر آرہا ہے۔ اس طرح کے مزید واقعات کی روک تھام کے لیے بیانیے کی تبدیلی بہت ضروری ہے، ’’ یہ بہت ضروری ہے کہ انکو بتایا جائے کہ ایک بیانیہ یہ ہے کہ ان کے اس طرح کے فعل سے جنت ملتی ہے۔ لیکن ہم کو انہیں بتانا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان کے اس طرح کے رجحانات سے صرف ملک، قوم، گھر، خاندان تباہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس بنیادی کام میں کامیاب ہوتے ہیں تو بے شک نوجوانوں کے ذہنوں اور ذہنیت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ ملک کی اس قدیم جامعہ میں لسانی یا صوبائی بنیاد پر ہونے والے تصادم کا یہ واقعہ پہلا نہیں ہے۔ گزشتہ برس بھی کلچرل شو کرانے اور رکوانے کے معاملہ پر جامعہ پنجاب میں انہی دو طلبا تنظیوں کے درمیان تصادم ہوا تھا جس کے نتیجے میں متعدد طلبا زخمی ہو گئے تھے اور جامعہ میں دو دن تدریس کا عمل معطل رہا تھا۔