تعلیمی اداروں پر حملے، سب سے زیادہ ہلاکتیں پاکستان میں
20 جنوری 2016امریکا میں قائم ’’یونیورسٹی آف میری لینڈ‘‘ میں گزشتہ چالیس سال سے دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات پر نظر رکھنے والے ’’گلوبل ٹیررازم ڈیٹا بیس‘‘ کے مطابق پاکستان میں تعلیمی اداروں پر حملوں میں چار سو اکسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد دنیا بھر میں تعلیمی اداروں پر حملوں میں ہلاک ہونیوالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کے بعد دوسرا نمبر روس کا ہے، جہاں تعلیمی اداروں پر حملوں میں تین سو ساٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
گلوبل ٹیررازم ڈیٹا بیس کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کے تعلیمی اداروں پر ساڑھے آٹھ سو حملے ہوئے جن میں سب سے زیادہ خطرناک سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو پشاور میں آرمی پبلک سکول کا حملہ تھا۔
ان اعدادو شمار کے مطابق انیس سو ستر سے لے کر دو ہزار چودہ تک جنوبی ایشیاء میں تعلیمی اداروں پر سب سے زیادہ حملے ہوئے، جہاں مرنے والوں کی کل تعداد نو سو اکیاون ہے۔ اسی عرصے کے دوران دنیا بھر کے تعلیمی اداروں پر چودہ سو چھتیس دہشت گردانہ حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں سے ساٹھ فیصد پاکستان کے تعلیمی اداروں پر ہوئے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان اعدادو شمار سے پاکستان میں تعلیمی اداروں کی سلامتی کے حوالے سے ایک خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف ایک قومی ایکشن پلان بھی ترتیب دیا گیا تھا جس کے تحت سکولوں کی سیکورٹی پر خصوصی توجہ دی جارہی تھی۔ تاہم وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے دیگر شہروں میں ہزاروں سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سیکورٹی سخت کرنا ابھی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں ترنول، بھارہ کہو، چک شہزاد اور یہاں تک کے شہر کے مرکزی علاقوں میں بھی ایسے سکول موجود ہیں، جہاں پر سکولوں کی دیواریں ٹوٹی ہوئی ہیں یا ان کی اونچائی بہت ہی کم ہے اور نہ ہی وہاں پر کوئی سیکورٹی گارڈ رکھا گیا ہے۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے سربراہ عامر رانا کا کہنا ہے کہ فوج کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی تو ہوئی ہے لیکن دہشت گردوں میں کارروائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اے پی ایس پر حملے کے بعد تعلیمی اداروں کی سیکورٹی بڑھائی ضرور گئی لیکن کیا وہ سیکورٹی کافی ہے تو میرے خیال میں نہیں۔ میرے خیال میں دہشت گردوں کی حملہ کرنے کی صلاحیت کا دوبارہ جائزہ لے کر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی فوجی کی کارروائیوں کی طرف سے دہشت گرد سرحد کے دوسری طرف افغان علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں لیکن ان کا پاکستان میں نیٹ ورک اور سپورٹ بدستور موجود ہے۔
عامر رانا کا کہنا تھا کہ اس وقت تک کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ دہشت گرد ایک بار پھر تعلیمی اداروں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔
سابق فوجی آفیسر اور سیکورٹی امور کے ایک ماہر اعجاز قیصر کا کہنا ہے کہ سکولوں کو محفوظ بنانے کے حوالے سے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈان نیوز کے لئے اپنے ایک آرٹیکل میں انہوں نے لکھا ہے کہ اسکول انتظامیہ کو چاہیے کہ سکیورٹی کے ماہر ادارے سے ’’دہشتگردی کے خطرے‘‘ کا تحریری جائزہ کرائیں اور کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے عملے اور طلباء کو عملی مشقیں کروائی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ پرنسپل اور دیگر اسٹاف سے ہنگامی حالتوں مثلاً آتشزدگی، بم کی اطلاع اور دہشت گردانہ حملے کی صورت میں مناسب منصوبوں کے بارے میں میں بھی پوچھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ اسکولوں کی انتظامیہ سے پوچھا جائے کہ کیا انہوں نے کسی پروفیشنل سکیورٹی ادارے سے سکیورٹی گارڈ بھرتی کیے ہیں؟ اگر اسکول کے پاس اس حوالے سے کوئی جامع منصوبہ موجود نہیں تو ڈپٹی کمشنر، ضلعی پولیس افسر اور سول سوسائٹی و میڈیا کو آگاہ کریں تاکہ اسکولوں پر اس حوالے سے دباؤ ڈالا جا سکے۔