عراق جنگ پر کوئی پچھتاوا نہیں: رمزفیلڈ
3 فروری 2011امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اپنی اس نئی کتاب میں رمزفیلڈ نے عراق جنگ کے حوالے سے کسی پچھتاوے یا شرمندگی کا اظہار کیے بغیر اس جنگ پر اٹھنے والے اخراجات اور اس وجہ سے ہونے والے نقصانات کو درست اور جائز قرار دیا ہے۔ اخبار نے رمزفیلڈ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر سابق عراقی صدر صدام حسین کی حکومت قائم رہتی، تو مشرق وُسطیٰ کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ پُرخطر ہوتی جتنی کہ آج ہے۔
رمزفیلڈ اور دیگر امریکی رہنماؤں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے عراقی ہتھیاروں کو 2003ء میں امریکی سربراہی میں عراق پر کیے گئے حملے کی وجہ بنایا تھا، مگر عراق پر قبضے کے بعد اس طرح کے کوئی بھی ہتھیار نہ تو تلاش کیے جا سکے اور نہ ہی ان کی تیاری کا کوئی ثبوت ملا تھا۔
ڈونلڈ رمزفیلڈ کو عراق جنگ کا سب سے بڑا منصوبہ ساز سمجھا جاتا ہے۔ انہیں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش نے سال 2006ء میں ان کے عہدے سے اس وقت برطرف کر دیا تھا، جب ساڑھے تین برس گزرنے کے باوجود بھی امریکہ عراقی جنگ کی دلدل میں مسلسل دھنستا چلا جا رہا تھا۔
اس سابق امریکی وزیر دفاع کی خود نوشت سوانح عمری کو Known and Unknown یعنی ’معلوم اور نامعلوم‘ کا نام دیا گیا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اس کتاب کی ایک جلد حاصل کی ہے۔ اس میں یوں تو رمزفیلڈ نے اپنی پوری زندگی کو سمو دیا ہے تاہم اس کتاب کا آدھے سے زیادہ حصہ ان کے بطور وزیردفاع چھ سالہ دور کا احاطہ کرتا ہے۔
سال 2006ء میں برطرفی کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ رمزفیلڈ اس حوالے سے اپنے خیالات منظر عام پر لائے ہیں۔ اس سوانح حیات میں انہوں نے عراق جنگ، اس سے قبل اور جنگ شروع ہونے کے بعد کی صورتحال، ناکامی کی وجوہات اور امریکی انتظامیہ میں پائے جانے والے اختلافات کے علاوہ اپنے خیالات کے حوالے سے بھی کھل کر لکھا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق رمزفیلڈ نے عراق جنگ کے پہلے ایک سال کے دوران ہی سامنے آنے والی ناکامیوں کو اس جنگ سے قبل، اس حوالے سے مناسب منصوبہ سازی کی کمی قرار دیا ہے کہ جنگ کے بعد کے حالات سے کیسے نمٹا جا سکتا تھا۔ رمزفیلڈ کے خیال میں اس کی ایک بڑی وجہ امریکی وزارت خارجہ اور پینٹاگان کے درمیان اختلاف رائے تھا۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک