بن لادن کو فرار کا موقع دیا گیا تھا!
29 نومبر 2009امریکی سینٹ کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان پر حملے کے ابتدائی دنوں میں بن لادن تورا بورا کے پہاڑی سلسلے میں امریکی فوج کی پہنچ میں تھا تاہم اُسے فرار ہونے کا موقع فراہم کیا گیا۔
جارج بش انتظامیہ کے اس انتہائی بااثر وزیر پر الزام لگا ہے کہ دسمبر سال 2001 میں انہوں نے افغانستان کے تورا بورا پہاڑی سلسلے میں مزید فوجی دستے بھیجنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بن لادن امریکی فوج کے مکمل گھیرے میں تھا اور اسے ہلاک یا گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اِس فیصلے سے بن لادن اور اُس کے ساتھیوں کو بآسانی پاکستان کے قبائلی علاقوں کی جانب فرار کا راستہ مل گیا۔ یہ رپورٹ امریکی سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے تحت تیار کی گئی ہے، جس کی تفصیلات آج باضابطہ طور پر جاری کی جا رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بن لادن کو گھیرے میں لئے جانے کے بعد امریکی میرینز کے چابک ترین دستوں کو وہاں بھیجنے کی بجائے محض افغان ملیشیا کا استعمال اور فضائی بمباری کی گئی اور پاکستان کی سرحدی فورس، فرنٹیئر کانسٹیبلری پر انحصار کیا گیا کہ وہ بن لادن کو قبائلی علاقوں کی جانب فرار نہیں ہونے دے گی۔
رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ رمز فیلڈ اور امریکی فوجی کمانڈر ٹومی فرینکس نے بن لادن کا پیچھا کرنے کی درخواست بھی رد کر دی تھی۔ اس رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ بن لادن آج بھی قبائلی علاقے میں ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال دوہزار ایک میں سولہ دسمبر کے آس پاس کے کسی دن بن لادن نے اپنی وصیت لکھ کر چند ساتھیوں کے ساتھ، بغیر کسی دشواری کے پیدل پاکستان کی جانب اپنا سفر شروع کیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بن لادن کو ہلاک کرنے یا پکڑنے میں ناکامی کے دور رس منفی نتائج برآمد ہوئے اور اسی سے افغانستان میں اب تک جاری مزاحمت کی بنیاد پڑی۔ رپورٹ میں سابق امریکی صدر جارج بش کی انتظامیہ میں شامل اہم عہدے داروں اور اس وقت کے فوجی کمانڈروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی وزیردفاع کا اُس وقت موقف تھا کہ مزکورہ علاقے میں بہت زیادہ امریکی فوجی تعینات کر کے وہ مقامی لوگوں میں امریکہ مخالفت جذبات نہیں ابھارنا چاہتے تھے۔ سینٹ کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ جان کیری کے بقول اس بات میں کوئی ابہام نہیں رہاکہ بن لادن اُس وقت تورا بورا میں امریکی فوج کی پہنچ میں تھا اور اس سے متعلق سابق نائب امریکی صدر ڈک چینی اور دیگر کا انٹیلی جنس معلومات پر اعتماد نہ کرنا غلط تھا۔
رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ بن لادن کے ہلاک ہونے سے دنیا بھر میں شدت پسندی کا خطرہ ختم نہیں ہو جاتا البتہ پاکستان کی جانب فرار ہونے سے نہ روکنے پر اُسےایک ہیرو کے طورپر ابھرنے کا موقع ملا، جس سے وہ شدت پسندوں میں مقبول ہوا اور اسے مالی امداد بھی ملتی رہی۔
پاکستان میں لوگوں کو علم ہے بن لادن کہاں ہے۔ براون
دریں اثنا برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے کہا ہے کہ جب پاکستان میں موجود بعض لوگوں کو پتہ ہے کہ القاعدہ کے لیڈران، اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کہاں ہیں تو ابھی تک انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جاسکا ہے۔ برطانوی نشیریاتی ادارے سکائی نیوز کو دئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز کو القاعدہ کے خلاف مزیر مؤثر کارروائیاں کرنی ہوں گی۔
ان کے بقول پاکستانی فوج کو جنوبی وزیرستان میں کچھ کامیابیاں ملی ہیں تاہم اب بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر آٹھ سال میں اسامہ بن لادن کیوں نہیں پکڑا گیا۔ برطانوی حکام کے مطابق وزیراعظم براؤن نے پاکستانی صدر آصف زرداری سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ انہوں نے زرداری کو طالبان کے خلاف جاری کارروائی میں تعاون کا یقین دلایا اور ان پر زوردیا کہ القاعدہ کی قیادت کے خلاف زیادہ موثر کارروائی کی جائے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : امجد علی