عرب دنیا میں انقلاب پھر خواب ہوا
17 نومبر 2014جب تین سال پہلے عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر احتجاج کی لہر شروع ہوئی تو سب سے زیادہ لگایا جانے والا نعرہ یہ ہوا کرتا تھا کہ ’عوام حکومت کا تختہ الٹ دیں گے‘۔ اگرچہ قاہرہ، دمشق یا بن غازی میں بہت سے مظاہرین نے انسانی وقار، انصاف، عوام کی شرکت اور استحصال کے خاتمے جیسے ٹھوس مطالبات بھی کیے لیکن مستقبل کا کوئی واضح، بڑا اور ٹھوس خاکہ نہ تو احتجاجی تحریکوں کے پاس تھا اور نہ ہی دباؤ کا شکار ہونے والی حکومتوں کے پاس۔ ان احتجاجی تحریکوں کے دوران بالآخر ساری توجہ اقتدار کی کشمکش کے اس بنیادی نکتے پر آ کر مرکوز ہو گئی کہ عوام حکومت کو اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کرنا چاہتے تھے جبکہ حکومتوں نے اپنی تمام تر قوتیں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے صرف کر دیں۔
اس سارے عمل کے عبوری نتائج تباہ کن ہیں۔ تقریباً تمام ہی حکومتیں اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب رہیں جبکہ جہاں جہاں ان حکومتوں کو اقتدار چھوڑنا بھی پڑا، وہاں عام انسانوں کے لیے حالات پہلے سے بھی زیادہ ناقابلِ برداشت ہو گئے ہیں۔ شام اور عراق کے وسیع تر علاقے دہشت گردی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اور ان ملکوں کی سالمیت خطرے میں ہے۔ داخلی تنازعات اور دہشت گردی ہی کے باعث لیبیا اور یمن کے بھی ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ ’اسلامک اسٹیٹ’ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہ بظاہر اور زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں اور اُنہیں اپنی صفوں کے لیے نئے جنگجو بھرتی کرنے میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آ رہا ہے۔ انسانوں کو بلا روک ٹوک انتہائی بے رحمی سے تشدد اور تذلیل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور فتح مندی کے نہ سمجھ میں آنے والے تکلیف دہ احساس کے ساتھ تشدد اور تذلیل کے ان واقعات کو ٹویٹر اور یو ٹیوب کے ذریعے پوری دنیا کو دکھایا بھی جا رہا ہے۔
ملکی سرحدیں مٹ رہی ہیں
آج کل اُن ریاستی سرحدوں کی قانونی حیثیت کو کھلے عام چیلنج کیا جا رہا ہے، جو کبھی نو آبادیاتی دور کے حاکموں نے مقامی ڈھانچوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کھینچی تھیں۔ سیاسی ماہرین آج کل اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا موجودہ حالات میں عراق اور شام کو باقاعدہ ’ریاستیں‘ کہا بھی جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ملکوں کے وسیع تر علاقوں پر آج کل جہادیوں اور دیگر گروپوں کو کنٹرول حاصل ہو چکا ہے۔ اسی طرح ایک آزاد اور خود مختار کُرد ریاست کا موضوع بھی پھر سے بین الاقوامی ایجنڈے پر نظر آ رہا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس معاملے میں کب، کیسے اور کیا پیشرفت ہو سکے گی۔
آج کل عرب دنیا پر نظر ڈالی جائے تو دو بڑے رجحانات دکھائی دیتے ہیں: ایک تو وہ ممالک ہیں، جو دہشت گردی اور جنگوں کی لپیٹ میں آکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ دوسرے مصر یا خلیجی ممالک کی طرح کی وہ آمریتیں ہیں، جہاں ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں اپوزیشن کو زیادہ سختی سے دبایا جا رہا ہے۔ یوں عرب اقوام کے بارے میں پہلے سے قائم کردہ اس رائے کا احیاء دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ابھی یہ اقوام جمہوریت کی ’اہل ہی نہیں‘ ہیں اور انہیں صرف ’آہنی ہاتھ‘ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ حسنی مبارک اور معمر القذافی جیسے آمروں نے اسی دلیل کے ساتھ اپنے اقتدار کو دوام بخشا اور اس سلسلے میں اُنہیں اکثر مغربی دنیا کی بھی خاموش تائید حاصل ہوا کرتی تھی۔
جمہوریت کے لیے نا اہل؟
یہ دلیل تکبر اور نسل پرستی پر مبنی ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ عرب دنیا کے وسیع تر حصوں میں فرسودہ سیاسی اور سماجی ڈھانچوں کے باعث جمہوریت اور تجدید کے لیے بنیادی حالات بہت ہی غیرموزرں ہیں۔ بہت سے ملکوں میں وہ متوسط طبقہ جنم ہی نہیں لے سکا ہے، جو یورپ اور دنیا کے دیگر خطّوں میں سماجی تبدیلیوں کا باعث بنا۔ عرب دنیا میں، حتیٰ کہ امیر خلیجی ملکوں میں بھی تعلیمی نظام مکمل طور پر ناکافی اور مایوسی کی حد تک فرسودہ ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی اور اقتصادی اصلاحات کے فقدان کے باعث مستقبل میں بھی یہ امکان باقی رہے گا کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزگار سے محروم ہونے کی وجہ سے انتہا پسندی کے راستے پر چل نکلے گی۔
ایسا ہوا تو نہ صرف انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو فائدہ ہو گا بلکہ اُن آمر حکمرانوں کو بھی، جو عشروں سے ضروری اصلاحات کا راستہ روکتے چلے آ رہے ہیں۔ اصلاحات کی سنجیدہ کوششیں صرف تیونس اور کسی حد تک مراکش میں ہی نظر آ رہی ہیں۔ زیادہ تر بادشاہ، امیر اور ’نمائشی‘ انتخابات کے نتیجے میں بننے والے صدور اسلام پسندوں کے ساتھ ساتھ آزاد خیال اور جمہوری قوتوں کو بھی کچلنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں اور یوں ایک نئے عدم اطمینان، نئے تشدد اور نئے عدم استحکام کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ایسے میں عرب اسپرنگ یا ’عرب بہار‘ کی طرح کی کوئی اگلی انقلابی تحریک کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے اور خدشہ یہ ہے کہ اب دوسری مرتبہ یہ کوئی ’بہار‘ نہیں ہو گی۔