عرب دنیا ’بہار‘ کی دہلیز پر؟: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
3 فروری 2011جب ایک گرتا ہے تو پھر ساتھ ہی دوسرے اور تیسرے کی باری بھی آ جاتی ہے۔ عرب ریاستوں میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ’ڈومینو‘ کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن یہی مماثلت دھوکہ بھی دے سکتی ہے۔
عرب دنیا 25 ریاستوں پر مشتمل ہے، جن کی مجموعی آبادی 360 ملین بنتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر لبنانی، قطری اور مراکشی باشندوں کو یک جان کر دینے والی مشترکہ قدریں تلاش کی جائیں، تو وہ بہت کم ہی ملیں گی۔
عرب ریاستوں میں ثقافتی تفریق بہت زیادہ ہے اور ان ملکوں کے حالات بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ عرب دنیا کے سارے ہی حکمران خود پسند آمر یا لوٹ مار کے شوقین سیاستدان نہیں ہیں۔
اردن کی مثال لی جائے تو ظاہر ہے کہ یہ ملک مکمل طور پر آزاد نہیں ہے۔ وہاں ایذا رسانی بھی دیکھنے میں آتی ہے اور شاہی خاندان کے حکمرانی کے حق پر شک کرنے والا کوئی بھی شخص بہت جلد جیل پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اردن میں سیاسی ماحول شام کے مقابلے میں زیادہ کھلا ہے۔ وہاں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والا سب سے بڑا اسلام پسند گروپ بھی حکومتی تبدیلی کا نہیں بلکہ صرف اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے۔
بات اگر شام کی کی جائے تو وہاں بھی لازمی نہیں کہ یہی ملک اگلا تیونس یا مصر ثابت ہو۔ جو بات صدر بشار الاسد کی پوزیشن کو مضبوط بناتی ہے اور جس کی وجہ سے ان کی حکومت کو کسی حد تک جائز بھی سمجھا جاتا ہے، وہ شامی حکومت کا اسرائیل کے بارے میں وا ضح موقف ہے۔ بشار الاسد اسرائیل کے ساتھ قیام امن پر تیار ہیں، لیکن صرف اسی صورت میں جب گولان کی پہاڑیاں واپس شام کو لوٹا دی جائیں۔
تب تک بشار الاسد ایسے عناصر کی حمایت کرتے رہیں گے، جو جارحیت پسند قرار دیے جانے والے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس مصری صدر حسنی مبارک نے اسرائیل کے ساتھ تعاون کیا اور ڈیڑھ ملین فلسطینیوں کو غزہ پٹی کے علاقے میں بند کیے رکھنے میں بھی اسرائیل کے ساتھی رہے۔ بشار الاسد کا موقف عرب دنیا میں رائے عامہ سے مطابقت رکھتا ہے۔ لیکن قاہرہ کے التحریر چوک میں مظاہرین کی طرف سے حسنی مبارک کو صیہونیت پسند اور سی آئی اے کو ایجنٹ قرار دیا گیا۔
وہ اقدار جن کا نام لے کر تیونس اور مصر میں عوام سڑکوں پر نکلے، ان کا اطلاق ہر جگہ ہوتا ہے۔ یعنی باوقار انداز میں زندگی گزارنے کی خواہش، سماجی انصاف کی طلب اور یہ حق کہ عوام کو بھی سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا موقع ملنا چاہیے۔ یہ بات ہر عرب شہری سمجھتا ہے۔
عرب دنیا میں شاید ہی ایسا کوئی شہری ہو جو تیونس یا قاہرہ میں پیش آنے والے واقعات کی دنیا بھر میں پھیل جانے والی تصویروں سے متاثر نہ ہوا ہو۔ ہر عرب شہری فوری طور پر یہ موازنہ کرنے لگتا ہے کہ اس کے اپنے ملک میں حالات کیسے ہیں۔ یوں پرانے اور بوسیدہ ہو چکے عرب طرز سیاست پر بلا تاخیر انگلی اٹھائی جانے لگتی ہے اور اس نظام کو چیلنج کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں ہر وہ سیاستدان، جو عشروں تک اپنے ملک کے عوام کو وہ سب کچھ دینے میں ناکام رہا جو ان کا حق بنتا تھا، وہ اب شدید دباؤ کا شکار ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ اب عمان، دمشق، الجزیرہ، اور دیگر عرب دارالحکومتوں میں سیاسی رہنما اس پیغام کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ ان حالات میں اگر ایک کے بعد ایک کر کے گرنے والے ’ڈومینو‘ کے ٹکڑوں کی مثال پوری طرح نہیں بھی دی جا سکتی، تو بھی یہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ عرب رہنما اپنی اپنی جگہ پرسکون ہو کر بیٹھے رہیں اور یہ سمجھیں کہ جو طوفان آیا ہے، وہ خود بخود گزر بھی جائے گا۔
اس کے علاوہ مغربی دنیا بھی شاید اب یہ سمجھ جائے کہ استحکام ایک ایسی منزل تو ہے، جس کے حصول کی کوشش کی جانی چاہیے تاہم قبرستان میں پائی جانے والی خاموشی اور سکون ایسا ہدف ہے، جس کے لیے بہت بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
تحریر: کارسٹن کیہون ٹاپ / مقبول ملک
ادارت: کشور مصطفیٰ