مصر میں اقتدار کی منتقلی شروع ہوجانی چاہیے، اوباما
2 فروری 2011امریکی صدر باراک اوباما نے حسنی مبارک کی جانب سے مزید چھ ماہ تک بر سر اقتدار رہنے کے عزم پر تشویش ظاہر کی ہے۔ صدرحسنی مبارک کے تازہ خطاب کے فوری بعد مغربی ممالک کا ردعمل سامنے آیا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے صدر مبارک پر زور دیا ہے کہ وہ مظاہرین کے احتجاج کے حق اور اطلاعات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ چانسلر میرکل نے مصر میں اصلاحات کے نفاذ کے پر امن عمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کہا گیا ہے کہ مصر میں آزاد و شفاف انتخابات کے لیے جمہوری اصلاحات ناگزیر ہیں۔
اس ضمن میں امریکی صدر باراک اوباما کے بیان کو خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔ مصر کا شمار عرب دنیا کے اہم ممالک میں ہوتا ہے اور یہ امر بھی اہم ہےکہ اس شمال افریقی ریاست کی حکومت امریکہ کی اہم حلیف تصور کی جاتی ہے۔ مصر میں گزشتہ کئی دنوں کی عوامی شورش کے بعد سے صدر اوباما اور صدر مبارک مسلسل رابطے میں ہیں۔
امریکی صدر نے مصری شہریوں سے مخاطب ہوکر کہا، ’ میں مصر کے عوام، بالخصوص نوجوانوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کی صدائیں سن رہے ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ اپنے مقدر کے خود مالک بن جائیں گے اور اپنے بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر حاصل کرلیں گے۔‘
امریکی صدر نے مصر میں اقتدار کا محور تصور کی جانے والی فوج کو بھی براہ راست مخاطب کیا اور کہا مصری فوج نے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے میں مثالی کردار ادا کیا ہے۔
امریکی صدر کے حالیہ بیان کے بعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ حسنی مبارک شائد توقع کے برخلاف ستمبر سے قبل اقتدار سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ صدر مبارک گزشتہ تین عشروں سے برسر اقتدار ہیں اور اب کہہ چکے ہیں کہ وہ چھٹی بار صدر بننے کی خواہش نہیں رکھتے۔
امریکی صدرکے ایک خصوصی ایلچی فرینک وسنر بھی مصر بھیجے جا چکے ہیں، جو صدر مبارک سے صلاح و مشوروں میں مصروف ہیں۔ قاہرہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق امریکہ محض مبارک تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے مصرکی دیگر سیاسی قوتوں سے بھی رابطے تیز کردیے ہیں۔
مصر میں امریکہ کی سفیر مارگریٹ سکوبی نے محمد البرادعی سے بھی ملاقات کی ہے جبکہ وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اپنے مصری ہم منصب محمد حسین طنطاوی سے رابطے میں ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ