عسکریت پسندوں کے خلاف ’راجگل فوجی آپریشن‘ ضروری کیوں؟
19 اگست 2016پاکستان کی فوج نے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں پاک افغان سرحد سے متصل وادی راجگل میں ایک فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوجیوں اور عسکریت پسندوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اس فوجی آپریشن میں عسکریت پسند مارے بھی گئے ہیں تاہم ان رپورٹوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق وادی راجگل میں ہونے والے بارودی سرنگ کے ایک دھماکے میں دو پاکستانی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
راجگل کا علاقہ ہی کیوں؟
پاکستان کی فوج نے اس علاقے میں فوجی آپریشن کا آغاز کیوں کیا؟ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے پشاور سے سینئیر صحافی محمود جان نے اس بارے میں بتایا،’’یہ علاقہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ہے۔ دہشت گرد اکثر خیبر ایجنسی کے اس علاقے سے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے تھے، دہشت گردی کے کئی واقعات میں شدت پسند اسی علاقے سے گزر کر پاکستان پہنچے تھے۔‘‘ محمود جان کے مطابق ایسی اطلاعات ہیں کہ پاکستانی فوج کے آپریشن خیبر ون اور خیبر ٹو کے بعد خیبر ایجنسی اور پشاور کے اکثر خودکش حملوں کے ذمہ دار گروہ لشکر اسلامی کی قیادت نے وہاں ہی پناہ لی ہوئی ہے۔ محمود جان کے مطابق پاکستان کی فوج کو کچھ ایسے شواہد بھی ملے ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی پلاننگ بھی اسی علاقے میں ہوئی تھی۔
پاکستانی نیوز چینل ’آج‘ کی پشاور میں بیورو چیف فرزانہ علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’راجگل سے جڑے افغانستان کے صوبے نازیان اور ننگرہار میں داعش اور تحریک طالبان پاکستان کے سرگرم ہونے کے شواہد موجود ہیں، پاکستان کی فوج کو ڈر ہے کہ جو کامیابی فوجی آپریشن ضرب عضب سے حاصل ہوئی ہے، اسے اس علاقے میں موجود دہشت گرد نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔‘‘ فرزانہ کہتی ہیں کہ پاکستان کی فوج قبائلی علاقے کی کافی ایجنسیوں کو شدت پسندوں سے کلیئر کرا چکی ہے لیکن یہ علاقہ اب بھی داعش اور تحریک طالبان پاکستان کی وجہ سے فوج کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ وہاں بہت جنگلات ہیں اور یہ انتہائی مشکل راستوں والا علاقہ ہے۔ فرزانہ نے بتایا کہ اس علاقے میں آپریشن کے بعد سے فوج کی جانب سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ انہوں نے ان عسکریت پسند تنظیموں کے کئی ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے۔
کیا فوجی آپریشن دور رس نتائج فراہم کرے گا؟
فرزانہ علی کی رائے میں خیبر ایجنسی میں خیبر ون اور خیبر ٹو فوجی آپریشنوں کے بعد پشاور پہلے سے محفوظ ہوا ہے۔ اس لیے فوج کو توقع ہے کہ پاک افغان سرحدی علاقے راجگل میں فوجی آپریشن کے بعد بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’ماضی میں فوجی آپریشنز کے باعث کئی علاقوں میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ کئی علاقوں میں پورے پورے گاؤں مسمار ہوگئے، سٹرکوں، پلوں اور پانی کا نظام بھی تباہ ہوا ہے۔ اس فوجی آپریشن میں بھی انفراسٹرکچر تباہ ہوگا۔ فوجی آپریشن سے جہاں عسکریت پسند مارے جاتے ہیں وہیں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر فوجی آپریشن کی ایک بڑی قیمت بھی ادا کرنا ہوتی ہے۔‘‘ رستم شاہ کے مطابق اس آپریشن کی ضرورت نہیں تھی، مسئلے کا حل دیگر طریقوں سے بھی نکالا جا سکتا تھا۔ ان کی رائے میں جب تک افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی تب تک اس خطے میں امن قائم نہیں ہوسکے گا۔
اس علاقے کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے نامور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’جب بھی دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ پیش آتا ہے جیسا کہ حال ہی میں کوئٹہ کا خود کش حملہ، تو پاکستان کی فوج جوابی کارروائی کرتی ہے کیوں کہ وہ عوام کا اعتماد کھونا نہیں چاہتی اور وہ یہ بھی ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ پاکستان کی ریاست دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔‘‘ رحیم اللہ یوسف زئی کی رائے میں اس بات کا تعین کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ فوجی آپریشن مثبت نتائج دے سکے گا یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں،’’ماضی کے فوجی آپریشنوں میں پاکستان کی فوج نے عسکریت پسندوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو اپنے قبضے میں تو لیا لیکن بہت کم شدت پسند مارے گئے، زیادہ تر یا تو افغانستان بھاگ گئے یا پھر پاکستان کے ہی مختلف علاقوں میں چھپ گئے ہیں لہذا ابھی یہ جنگ جاری ہے اور مستقبل میں عسکریت پسند حملےکرتے رہیں گے۔‘‘
کیا راجگل وادی کے لوگ اس آپریشن سے متاثر ہوں گے؟
ماضی میں فوجی آپریشنوں میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق مختلف ایجنسیوں میں فوجی کارروائیوں کی وجہ سے لگ بھگ بیس لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی۔ تاہم راجگل آپریشن میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا خدشہ نہیں ہے۔ رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں،’’راجگل کم آبادی والی وادی ہے، یہاں پر ماضی میں پاکستان کی فضائیہ اور فوج کی جانب سے فضائی بمباری ہو چکی ہے اور عسکریت پسندوں کے یہاں آنے جانے کے باعث اکثر لوگ اس علاقے سے منتقل ہو چکے ہیں۔‘‘ یوسف زئی کے مطابق ماضی میں نقل مکانی کرنے والوں میں سے لگ بھگ دس لاکھ افراد اورکزئی، خیبر، کرم، شمالی اور وزیرستان ایجنسی میں اپنے گھروں میں واپس آگئے ہیں اور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس سال کے آخر تک مزید دس لاکھ افراد واپس آجائیں گے۔
رستم شامہ مہمند کی رائے میں بھی اس آپریشن سے بڑے پیمانے پر لوگ نقل مکانی نہیں کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب فوج اس علاقے میں مستقل چھاؤنی بنا رہی ہے لہذا بڑے پیمانے پر نقل مکانی نہیں ہوگی، البتہ کسی علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں فوج کی موجودگی سے اس علاقے کے لوگوں کو کچھ فوائد تو حاصل ہوتے ہیں لیکن اس کے نقصانات بھی ہیں۔