1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عظیم فن پارے، ہمہ وقت آپ کی دسترس میں

4 اپریل 2012

منگل کو امریکی شہر شکاگو کے ’دی آرٹ انسٹیٹیوٹ‘ میں گوگل آرٹ پروجیکٹ میں توسیع کی افتتاحی تقریب ہوئی، جہاں گوگل کمپنی نے اعلان کیا کہ اب مزید درجنوں ملکوں کے فنی شاہکار گوگل آرٹ پروجیکٹ کا حصہ بنیں گے۔

https://p.dw.com/p/14XKg
تصویر: googleartproject.com

گوگل آرٹ پروجیکٹ اس سال فروری میں شروع کیا گیا تھا اور اس کے تحت گھر بیٹھے لندن کی ٹیٹ گیلری، نیویارک کے میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ، فلورینس کے اُفیزی یا پھر ایمسٹرڈم کے وان گوخ میوزیم جیسے نامور اداروں کے تقریباً ایک ہزار فن پارے اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔

اب اس منصوبے میں توسیع کرتے ہوئے چالیس ممالک کے 151 عجائب گھروں اور دیگر اداروں کی پینٹنگز اور مجسموں کی تیس ہزار سے زیادہ الٹرا ہائی ریزولیوشن یعنی ایسی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں، جنہیں آپ زیادہ سے زیادہ بڑا کر کے اُن کی ایک ایک تفصیل کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔

اس منصوبے کے تحت آپ اپنے کمپیوٹر پر کسی بھی وقت اپنا پسندیدہ فنی شاہکار تمام جزیات کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں
اس منصوبے کے تحت آپ اپنے کمپیوٹر پر کسی بھی وقت اپنا پسندیدہ فنی شاہکار تمام جزیات کے ساتھ دیکھ سکتے ہیںتصویر: Screenshot Google Art Project

گوگل پروجیکٹ سے وابستہ مارگو جورجیادیس بتاتے ہیں:’’آئندہ کوئی بھی شخص محض اپنے ماؤس کی ایک کلک کے ذریعے ان عظیم اداروں کے اندر جا کر دیکھ سکتا ہے۔ اس منصوبے نے تمام رکاوٹیں توڑ ڈالی ہیں۔ اب لوگ بہت ہی باترتیب انداز میں اور پُرسکون طریقے سے فن کی باریکیوں کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔‘‘

یہ منصوبہ گوگل کے اُن عزائم کا ایک حصہ ہے، جن کا مقصد انٹرنیٹ سے جڑے ہر شخص کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ دنیا بھر کے عجائب گھروں اور لائبریریوں میں موجود انسانی علم اور تخلیقی فن پاروں کے وسیع ذخائر سے استفادہ کر سکے۔

گزرے سات برسوں کے دوران گوگل بے شمار مخطوطات اور دستاویزات کے ساتھ ساتھ پندرہ ملین سے زیادہ کتابوں کی بھی ڈیجیٹل نقول تیار کر چکا ہے تاہم کاپی رائٹ کے حقوق کی وجہ سے گوگل کو ان میں سے بہت سی کتابوں کے محض چند ایک اقتباسات ہی دکھانے کی اجازت ہے۔

گوگل آرٹ پروجیکٹ کے تحت صارفین جدید ترین گوگل سٹریٹ ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے چھیالیس عجائب گھروں کی سیر بھی کر سکتے ہیں۔ یہ تصاویر ایک گیگا پکسل (یا ایک ارب پکسلز) سے بھی بڑے سائز کی ہیں اور اِنہیں زُوم یعنی بڑا کر کے دیکھا جائے تو کینوس پر موجود دراڑوں کے اندر تک کی وہ تفاصیل بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جو عام آنکھ سے دیکھنے پر نظر نہیں آتیں۔

گوگل آرٹ پروجیکٹ کی وَیب سائٹ پر نظر آنے والی ایک تصویر
گوگل آرٹ پروجیکٹ کی وَیب سائٹ پر نظر آنے والی ایک تصویرتصویر: googleartproject.com

گوگل آرٹ پروجیکٹ کو عملی شکل دینے والی ٹیم سے وابستہ ایک انجینئر پیوٹر آدمچک کہتے ہیں کہ گیلریوں کے اندر کوئی بھی آپ کو تصویرکو اتنا قریب سے جا کر دیکھنے کی اجازت نہیں دے گا، جتنے قریب سے آپ اس منصوبے کے ذریعے اِنہیں اپنے کمپیوٹر کی اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔

اس منصوبے سے آرٹ کی تعلیم کو بھی فروغ ملے گا اور اساتذہ اپنے طلبا کو کسی عجائب گھر یا گیلری میں لے جانے سے پہلے اُنہیں کمپیوٹر پر مخصوص تصاویر دکھا کر اُن پر مفصل گفتگو کر سکیں گے۔

ابھی گوگل نے یہ نہیں بتایا کہ فنون کی سرپرستی کے اس منصوبے پر اُس کا کتنہ پیسہ خرچ ہو رہا ہے، تاہم 45 ارب ڈالر کے بینک بیلنس کے ساتھ یہ ادارہ آسانی سے اس طرح کے منصوبے کے اخراجات برداشت کر سکتا ہے۔

aa/ss (AP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید