پاکستان میں پی ٹی آئی کے تمام بڑے رہنما گرفتار
11 مئی 2023پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا ہے کہ اس کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی کو بھی جمعرات کی صبح اسلام آباد پولیس نے ''گرفتار'' کر کے ''نامعلوم مقام'' پر منتقل کر دیا ہے۔ فواد چوہدری اور اسد عمر کو بدھ کی رات کو ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
القادر ٹرسٹ کیس سے عمران خان اور ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟
اسلام آباد پولیس نے بھی پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں نقص امن کے خطرہ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
عمران خان کا گرفتاری کے بعد عدالتوں میں مصروف دن
اسلام آباد پولیس نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ''منصوبہ بند طریقے سے آتش زنی، جلاوگھیراؤ اور پرتشدد مظاہروں پر مشتعل کرنے والوں کے خلاف نقص امن کے خطرے کے تحت گرفتاریاں کی گئی ہیں۔''
القادر ٹرسٹ کیس : عمران خان گرفتار ملک ریاض کی باری کب آئے گی؟
اس ٹویٹ میں مزید کہا گیا: ''پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، جمشید اقبال چیمہ، فلک ناز چترالی، مسرت جمشید چیمہ اور ملکہ بخاری کو گرفتار کیا ہے۔ یہ تمام گرفتاریاں قانونی تقاضوں کے مکمل کرکے عمل میں لائی گئیں ہیں۔ مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔ عوام میں افواہ اور اشتعال پھیلانے سے گریز کریں۔''
پنجاب بھر میں ایک ہزار سے زائد گرفتاریاں، انٹرنیٹ سروس معطل
ادھر لاہور پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، شاہ محمود قریشی، مراد سعید، علی امین گنڈا پور اور دیگر اعلیٰ رہنماؤں کے خلاف قتل، ڈکیتی، پولیس پر حملے اور دیگر درجنوں الزامات کے تحت مقدمات درج کیے ہیں، جس میں بعض کیسز انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت بھی ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری: شہر شہر احتجاج، نگر نگر مظاہرے
آٹھ ہلاک سینکڑوں زخمی
اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کو آٹھ دن کے لیے پولیس تحویل میں دینے کے بعد سے ملک بھر میں مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں اب تک کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور تین سو کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔
حکام کے مطابق تقریباً دو ہزار مشتعل مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔ بدھ کے روز پولیس اور پی ٹی آئی کے حامیوں کے درمیان دن بھر جھڑپیں ہوتی رہیں، جس کے نتیجے میں تھانوں سمیت کئی سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچا۔
فوج کے بیان پر پی ٹی آئی کا ردِعمل
تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ افواجِ پاکستان کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے گزشتہ روز جو بیان جاری کیا گیا وہ حقائق سے متصادم اور زمینی صورتحال کے ناقص ادراک پر مبنی ہے۔
فوج نے اپنے بیان میں نو مئی کو سیاہ دن قرار دیا اور عمران خان کی گرفتاری کا حوالے دیتے ہوئے کہا تھا: ''اس گرفتاری کے فوراً بعد ایک منظم طریقے سے فوجی املاک اور تنصیبات پر حملے کرائے گئے اور فوج مخالف نعرے بازی کروائی گئی۔ جو کام ملک کے ابدی دشمن پچھتر برس میں نہ کر سکے، وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اس گروہ نے کر د کھایا ہے۔''
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ فوج کا یہ اعلامیہ، ''وفاقِ پاکستان کی سب سے معتبر، مقبول اور بڑی سیاسی جماعت کے خلاف نفرت و انتقام پر مبنی بیانیے کا افسوسناک مجموعہ ہے۔ تحریک انصاف اپنی ساخت، نظریے اور منشور کے اعتبار سے ایک جمہوری جماعت ہے۔''
پارٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عوامِ پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کا تحفظ ہی اس کا مقصد ہے اور تحریک انصاف نے ہمیشہ آئین و قانون سے انحراف کی حوصلہ شکنی کی ہے۔
پارٹی نے اپنی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''نو مئی کو چیئرمین تحریک انصاف کے ہائی کورٹ سے نیم فوجی دستوں کے ذریعے اغوا کے بعد کا عوامی رد عمل بہت سے عوامل سے جڑا ہے۔ اور چیئرمین عمران خان گزشتہ تیرہ ماہ سے مسلسل ان عوامل کی نشاندہی کرتے آئے ہیں۔''
''ان تیرہ مہینوں کے دوران آئین سے بدترین انحراف اور شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں نے عوام میں تلخی کو جنم دیا۔ ریاستی اداروں کے مابین طاقت کے توازن میں شدید بگاڑ، ماورائے قانون اقدامات اور معیشت کی تباہی نے بھی تلخی پیدا کی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت اور اس کی قیادت کو کچلنے کی ناروا کوششوں نے بھی عوام میں اس تلخی کو جنم دیا، جسے ریاست نظر انداز کرتی آئی ہے۔''
انٹرنیٹ پر جزوی پابندی برقرار
پاکستان کے بیشتر حصوں میں انٹرنیٹ سروسز اب بھی بری طرح متاثر ہیں اور ٹوئٹر سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی سروسز تک رسائی میں خلل پڑ رہا ہے۔ اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی گئی ہے، جس پر آج ہی سماعت کی توقع ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے منگل کے روز عمران خان کی گرفتاری کے بعد انٹرنیٹ سروس کو سست کر دیا تھا، تبھی سے صارفین کو یوٹیوب، فیس بک اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ تک رسائی میں مشکلیں آ رہی ہیں۔ ملک میں ابھی تک موبائل ڈیٹا اور تھری جی فور جی سروسز متاثر ہیں۔
ص ز / ج ا (نیوز ایجنسیاں)