عمران خان کے دور میں معیشت جمود کا شکار رہی، شہباز شریف
14 اپریل 2022تین مرتبہ پاکستانی وزیر اعظم رہنے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کے چھوٹے اور اس وقت 70 سالہ بھائی شہباز شریف نے ابھی اسی ہفتے پیر کے روز اس جنوبی ایشیائی ملک میںنئے وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ ماضی میں کئی برسوں تک ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہنے والے شہباز شریف اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر ہیں اور بطور سربراہ حکومت اپنی کابینہ کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔
'پاکستان اسپیڈ‘
شہباز شریف کا ملکی سربراہ حکومت بننا سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے خلاف پارلیمانی عدم اعتماد کی تحریک اور کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے سیاسی بحران کے اختتام پر ممکن ہوا تھا۔ عمران خان کے دور حکومت میں بھی ملکی معیشت کی حالت بہت اچھی نہیں تھی اور اسلام آباد میں نئی ملکی حکومت کو بھی اب جن اقتصادی حالات کا سامنا ہے، وہ ماضی قریب سے مختلف نہیں ہیں۔
اس پس منظر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے آج جمعرات چودہ اپریل کے روز راولپنڈی میں میٹرو بس کے ایک زیر تعمیر منصوبے کا دورہ کیا اور وہاں کام کی رفتار بہت سست رہنے کی شکایت بھی کی۔ ساتھ ہی نو منتخب وزیر اعظم نے یہ حکم بھی دیا کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے اور زیر تعمیر ترقیاتی منصوبوں کی جلد تکمیل کی خاطر 'پاکستان اسپیڈ‘ کی پالیسی کے تحت جلد از جلد کام مکمل کیا جائے۔ 'پاکستان اسپیڈ‘ اسی طرح کی پالیسی ہے، جس پر ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں عمل کرتے ہوئے اس وقت کئی بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل کیے گئے تھے، جب شہباز شریف صوبائی وزیر اعلیٰ تھے۔
راولپنڈی میں میٹرو بس منصوبے کے دورے کے بعد شہباز شریف نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ''ملکی معیشت کے تقریباﹰ تمام شعبے عمران خان کے دور اقتدار میں جمود کا شکار رہے۔‘‘ اہم بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے راولپنڈی میں جمعرات کی صبح جب ایک میٹرو بس پروجیکٹ کا دورہ کیا، تو اس سے صرف چند گھنٹے پہلے ہی سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد پشاور میں اپنا پہلا بڑا عوامی جلسہ کیا تھا۔
سیاسی تلخیوں کے تسلسل کے اشارے
اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں میں مختلف نیوز ایجنسیوں نے لکھا ہے کہ طویل عرصے سے شدید مشکلات کی شکار پاکستانی معیشت کی حالت میں بہتری محض چند دنوں کی نہیں بلکہ ایک طویل عرصے کی بات ہو گی۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ شہباز شریف نے سربراہ حکومت بننے کے بعد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنروں کی پینشن میں 10 فیصد اضافے کا جو فوری اعلان کیا تھا، اس پر فوری عمل درآمد کے آثار کم ہیں۔
اس تناظر میں شہباز شریف کا یہ کہنا کہ پاکستانی معیشت عمران خان کے دور حکومت میں جمود کا شکار رہی، اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ملکی سیاست میں شدید نوعیت کے جماعتی اختلافات اور باہمی تلخیاں شاید بہت جلد ختم نہیں ہوں گے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہی اختلافات اور تلخیاں اگلے سال اکتوبر تک جاری رہ سکتے ہیں، جب موجودہ پارلیمان کی مدت پوری ہو جائے گی اور ملک میں نئے عام انتخابات کرائے جائیں گے۔
م م / ع آ (اے ایف پی)