عمران کی مزید مقدمات میں گرفتاری، مقاصد کیا ہیں؟
14 نومبر 2023اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج جہاں عمران خان کے خلاف جاری سائفر کیس میں کاروائی روکنے کا حکم دیا وہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کی عدالت نے چئیرمین پی ٹی آئی کو مذید دو مقدمات میں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ مختلف مقدمات میں عمران خان کی گرفتاری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حکومت ان کو طویل عرصے تک جیل میں رکھنا چاہتی ہے اور انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دوران بدترین دھاندلی کرنا چاہتی ہے۔
پی ٹی آئی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمات میرٹ پر بنے ہیں اور یہ کہ وہ صرف ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے دعوے کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ آج اسلام اباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں کاروائی روکنے کا حکم دیتے ہوئے حکومت سے پوچھا ہے کہ وہ کون سے حالات ہیں، جن کے تحت سائفر کیس کی کاروائی جیل کے اندر کی جا رہی ہے۔ حکومتی وکیل نے عدالت کو یقین دلایا ہے کہ اس حوالے سے نوٹیفکیشن پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے سرکاری تحائف کی فروخت کے حوالے سے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ اس کے علاوہ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے سینکڑوں کینال زمین اور اربوں روپے وصول کیے۔
مقدمات کا مقصد اسیری میں طوالت؟
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اورکے پی حکومت کے سابق ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ سب انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دوران دھاندلی کی تیاری کی کوشش ہے۔ عمران خان کی ایک مقدمے میں رہائی ہوتی ہے تو دوسرا مقدمہ ان پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس وقت وہ 200 سے زائد مقدمات کا سامنا کر رہے۔‘‘
بیرسٹر سیف کے مطابق اس کا سیدھا سا مقصد یہ ہے کہ عمران خان کو طویل عرصے تک جیل میں رکھا جائے۔ '' سرکار ان کی عوامی مقبولیت سے خوفزدہ ہے۔ اس لیے وہ زیادہ عرصے تک خان صاحب کو جیل میں رکھنا چاہتی ہے۔‘‘
عمران خان کے ایک قریبی ساتھی اور سابق وفاقی وزیر ذوالفقار بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "عمران خان کے خلاف مقدمات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ '' ان کے اوپر سب سے کم وقت میں سب سے زیادہ کیسز بنائے گئے ہیں، جو ایک ریکارڈ ہے۔ ہم ایک مقدمے کو ختم کراتے ہیں یہ دو اور نئے مقدمات لے آتے ہیں۔‘‘
ڈیل اور مقدمات
پاکستان تحریک انصاف ماضی میں یہ کہتی رہی ہے کہ عمران خان پر یہ دباؤ ریاست کے طاقتور عناصر کی طرف سے ڈالا گیا ہے تاکہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ان دعووں میں وزن معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح کی رپورٹیں منظر عام پر آئی ہیں کہ عمران خان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کے چلے جائیں اور یہ کہ وہ طاقتور حلقوں سے ڈیل کر لیں لیکن عمران خان ایسی کسی ڈیل کو قبول نہیں کر رہے اسی لیے ان پر دھڑا دھڑ مقدمات بنائے جارہے ہیں۔‘‘
جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مطابق بشرٰیٰ بی بی کو بھی جیل میں ڈالنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں تاکہ ڈیل کے لیے عمران خان پر دباؤ بڑھا یا جا سکے۔
سیاسی مقدمات
پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ حکومتیں ہمیشہ سابقہ حکومتوں کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مقدمات بناتی ہیں اور پھر ان کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ 1988 میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نون کے لوگوں کے خلاف یہی کیا جبکہ نوے کی دہائی میں دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر مقدمات بنائے۔
پی ٹی آئی نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات بنائے۔ اسلام اباد سے تعلق رکھنے والی تجزیہ نگار ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مقدمات کو سیاسی طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سیاست دانوں کو کوئی ایسا میکنزم بنانا چاہیے کہ اگر کسی کے خلاف واقعی کرپشن کے کیسز ہیں تو موثر انداز میں مقدمہ چلایا جائے اور ان کو عدالتوں میں ثابت کیا جائے۔‘‘
مقدمات میرٹ پر ہیں
پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس کے خلاف تمام مقدمات بے بنیاد ہیں۔ تاہم مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق گورنر خیبر پختون خواہ اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمات میرٹ پہ بنے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' مسلم لیگ ن پاکستان تحریک انصاف سے کوئی عداوت نہیں رکھتی اور وہ چاہتی کہ اس کا سیاسی طور پر مقابلہ کیا جائے لیکن، جہاں تک ان مقدمات کا تعلق ہے جیسے کہ القادر ٹرسٹ۔ اس میں چیزیں بڑی واضح ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے مقدمات خالصتا میرٹ کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں۔‘‘