غزہ جنگ سے متعلق پاکستان کی قراداد اقوام متحدہ میں
4 اپریل 2024بدھ کے روز پیش کی جانے والی قرارداد کے مسودے میں ''شہریوں کی بھوک کو غزہ میں جنگی حمکت عملی کے طورپر استعمال کرنے‘‘ کی مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ''نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنی قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔‘‘
اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ کام نہیں آئے گا، نیتن یاہو
اقوام متحدہ کی فائر بندی قرارداد کے باوجود غزہ میں جنگ جاری
اس قرارداد کا مسودہ پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں اقوام متحدہ کے 56 رکن ممالک میں سے 55 کی جانب سے پیش کیا ہے۔ البانیہ اس میں شامل نہیں ہوا۔ اس قرارداد کے متن کو پیش کرنے میں بولیویا، کیوبا اور جنیوا میں فلسطینی مشن بھی مشترکہ طور پر شریک ہیں۔
اگر قرارداد کا مسودہ منظور ہو جاتا ہے تو یہ پہلا موقع ہوگا، جب اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا یہ اعلیٰ ادارہ غزہ میں جاری جنگ کے بارے میں کوئی موقف اختیار کرے گا۔
قرارداد میں کیا کہا گیا ہے؟
قرارداد کے متن میں غزہ کے آبادی والے علاقوں میں ''اسرائیل کی طرف سے وسیع پیمانے پر اثر انداز ہونے والے دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال‘‘کی مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ''نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنی قانونی ذمہ داری کو برقرار رکھے۔‘‘ آٹھ صفحات پر مشتمل اس مسودے میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی علاقے پر اپنا قبضہ ختم کرے اور غزہ کی پٹی پر اپنی ''غیر قانونی ناکہ بندی‘‘ کو فوری طور پر ختم کرے۔
غزہ جنگ میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے بتیس ہزار سے تجاوز کر گئی
پوپ فرانسس کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ
قرارداد کے مسودے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو ہتھیاروں، دھماکہ خیز مواد اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فروخت یا منتقلی روکی جائے۔
اس میں دنیا بھر کے ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی UNRWA کو خاطر خواہ فنڈنگ مہیا کی جائے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی بستیوں کی توسیع بند کرے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر 25 مارچ کو غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کی تھی۔ سلامتی کونسل میں ہونے والی ووٹنگ میں امریکہ نے حصہ نہیں لیا تھا۔ لیکن زمینی سطح پر اس قرارداد کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔
حماس کا ذکر نہیں
قرارداد کے مسودے میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کا نام نہیں لیا گیا ہے لیکن اس میں اسرائیلی شہری علاقوں پر راکٹ داغنے کی مذمت کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا کہ بقیہ تمام مغویوں کو فوراً رہا کیا جائے۔ انسانی حقوق کی کونسل 47 ممالک پر مشتمل ہے ، ان میں سے 18 نے قرارداد کا مسودہ پیش کیا ہے۔ اس فورم پر کسی بھی قرارداد کو واضح اکثریت سے منظوری کے لیے 24 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اراکین کی غیر حاضری کی وجہ سے قراردادیں کم ووٹوں سے بھی منظور ہو سکتی ہیں۔
یہ کونسل جمعہ کو اسرائیلی بستیوں، فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور مقبوضہ شام میں گولان کی پہاڑیوں میں انسانی حقوق سے متعلق تشویش کے موضوعات کے ساتھ اس قرارداد کے مسودے کو منظور کرنے کے بارے میں بحث کرے گی۔ اسرائیل طویل عرصے سے انسانی حقوق کی کونسل پر اس کے خلاف متعصب ہونے کا الزام لگاتا رہا ہے۔
ج ا/ ش ر (اے ایف پی)