غزہ میں جنگی جرائم کے الزامات کی تفتیش ہونی چاہئے، جنرل اسمبلی
7 نومبر 2009بحث کے بعد گولڈ اسٹون رپورٹ پر ہونے والی ووٹنگ میں جنرل اسمبلی کی طرف سے جرائم کے الزامات کی تفتیش کے حق میں ووٹ دیا گیا۔ اس پر اسرائیل نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ رواں برس کے اوائل میں اقوام متحدہ کی طرف سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بھی اسرائیل اور حماس کے مابین سن دو ہزار آٹھ کے اواخر اور دو ہزارنوکے اوائل میں ہونے والی جنگ کے دوران دونوں طرف سے جنگی جرائم کے سرزد ہونے کی نشاندہی کی گئی تھی۔
دریں اثناء ایک جنوبی افریقی وکیل اور اقوام متحدہ کے چیف پروسیکیوٹر رچرڈ گولڈاسٹون اور ان کی ٹیم نے غزہ کی اْس جنگ کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد اس میں دونوں فریقین کی طرف سے جنگی جرائم کے ارتکاب پر روشنی ڈالی تھی۔
اس رپورٹ پر اسرائیل کی طرف سے سخت رد عمل کا اظہار ہوا- ادھر عرب ممالک نے ایک مسودہ تیار کیا جس میں تین ہفتوں تک جاری رہنے والی اس جنگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ضمن میں اسرائیل اور فلسطین دونوں طرف سے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ چھان بین کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔
اگرچہ عرب ممالک کی طرف سے تیار کردہ یہ مسودہ کسی بھی فریق کو اس پر عمل درآمد کا پابند نہیں کرتا تاہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس پر بحث کے بعد ہونے والی ووٹنگ میں 114 ووٹ جنگی جرائم کے الزامات کےبارے میں تفتیش کرانے کے حق میں دیے گئے جبکے اس کی مخالفت میں محض 18 ووٹ پڑتے۔
امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ 44 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا- عرب ممالک کا مسودہ قرارداد دراصل رچرڈ گولڈ اسٹون کی مشاورت سے تیار کیا گیا- یہ دراصل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی 575 صفحات پر مشتمل رپورٹ کا رد عمل ہے۔
ذرائع کے مطابق اسرائیل نے گولڈ اسٹون کے ساتھ رپورٹ تیار کرنے میں تعاون نہیں کیا تھا- اس پر والتھم کی برنڈس یونیورسٹی میں منعقدہ ایک فورم میں اسرائیل کی طرف سے تعاون نہ کئے جانے کی سخت مذمت بھی کی گئی۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں سے کہا گیا ہے کہ وہ چھ ماہ کے اندر اندر آزادانہ اور مستند تفتیشی رپورٹیں پیش کریں، بصورت دیگر دونوں کو دی ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں طلب کیا جانا چاہئے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: ندیم گِل