1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غلطی سے لکیر پار کرنا، ایک طالب علم کو بھارتی جیل لے گیا

28 جون 2022

14 سالہ پاکستانی طالب علم عبدالصمد کے خاندان کا کہنا ہے کہ اس کی گرفتاری اور دیگر معلومات کی تفصیلات کے لیے ان کی طرف سے کی جانے والی تمام تر قانونی کوششیں ابھی تک بے سود ثابت ہوئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4DMY3
Indien Pakistan Grenze, indische Soldaten
تصویر: AFP

پاکستانی زیر انتظام کشمیر  سے تعلق رکھنے والا نویں کلاس کا طالب علم عبدالصمد گزشتہ برس نومبر میں پاکستانی اور بھارتی کشمیر کے درمیان موجود کنٹرول لائن حادثاتی طور پر عبور کر گیا تھا۔ اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ بھارتی فورسز نے عبدالصمد کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس وقت کے بعد سے یہ نوجوان ابھی تک بھارتی قید میں ہے۔ پولیس نے اس کے خلاف بھارتی زیر انتظام کشمیر میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا مقدمہ درج کیا۔

لائن آف کنٹرول پر واقع تیتری نوٹ نامی گاؤں کے رہائشی اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ 14 سالہ عبدالصمد اپنے کبوتر اڑا رہا تھا اور انہیں پکڑنے کی کوشش کے دوران وہ کنٹرول لائن عبور کر گیا۔ عبدالصمد کے ماموں ارباب علی نے ڈی ڈبلیو کو اس بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا، ''وہ اپنے کبوتر پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا، یہ جانے بغیر کہ وہ اسی دوران بھارتی حصے میں داخل ہو گیا ہے۔ اسے بھارتی سرحدی فورسز نے فوری طور پر گرفتار کر لیا۔ ہمیں اس دن شام میں معلوم ہوا کہ عبدالصمد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘

رہائی میں کئی برس لگ سکتے ہیں

اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک اس سے رابطے یا اس کی رہائی کے بارے میں سننے کا انتظار کر رہے ہیں۔ عبدالصمد کے ماموں ارباب علی کے مطابق، ''ہم نے پاکستانی دفتر خارجہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ عبدالصمد کی رہائی کے لیے مدد کرے مگر ہمیں پاکستانی حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملی۔ ہم صرف اس کی آواز سننا چاہتے ہیں، ہمیں کوئی امید نظر نہیں آ رہی، کوئی بھی ہماری مدد نہیں کر رہا۔‘‘

مائیکل کوگلمین واشنگٹن میں قائم ووڈرو ولسن سنٹر فار اسکالرز کے ساتھ جنوبی ایشیا کے ماہر کے طور پر وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے حادثات خاندانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں، خاص طور پر جب انہیں یہ معلوم کرنے میں بھی طویل عرصہ لگ جاتا ہو کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کوگلمین کا کہنا تھا، ''ضروری نہیں کہ ان خاندانوں کو  اس بات کی بھی خبر مل جائے کہ ان کے پیاروں کے ساتھ دوسری جانب اچھا سلوک کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات اہم ہے کہ حکام جتنی جلدی ممکن ہو سکے وہ ایسے افراد کے خاندانوں کے ساتھ رابطہ کریں۔‘‘

کشمیر، جہاں پرندے آزاد لیکن انسان قفس میں

وہ مزید کہتے ہیں، ''حادثاتی طور پر سرحد پار کرنے کے اس طرح کے کیسز کا عام طور پر مثبت نتیجہ نکلتا ہے اور ایسے لوگوں کو عموماﹰ واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں اکثر کئی برس کا عرصہ لگ جاتا ہے۔‘‘

بہت سے لوگ ایسے ہی مسائل کا شکار

راہول کپور بھارت سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن ہیں۔ انہوں نے عبدالصمد کی رہائی کے لیے ایک آن لائن پٹیشن شروع کی۔ اس پٹیشن پر ہزارہا افراد نے دستخط کیے جس کے بعد عبدالصمد کو کونسلر تک رسائی مل گئی اور بھارت میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں نے مارچ میں امرتسر شہر کی جیل میں عبدالصمد سے ملاقات بھی کی۔

پاکستان اور بھارت نے اپریل 1974ء میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ایسے قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا جنہوں نے کوئی جرم نہیں کیا اور غلطی سے سرحد عبور کی ہو۔

اس معاہدے اور کونسلر سے ملاقات کے باوجود عبدالصمد کی رہائی کا معاملہ ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ تاہم وہ واحد ایسا شخص نہیں ہے جو ان حالات کا شکار ہے۔ دونوں حکومتوں کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق جنوری 2022ء تک پاکستانی جیلوں میں قید بھارتی شہریوں کی تعداد 628 تھی جبکہ بھارتی جیلوں میں ایسے پاکستانی قیدیوں کی تعداد 282 ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد پر ایسے الزامات ہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر دوسرے ملک کی بحری سرحد میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔

قمر چیمہ پاکستان دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ اور بے یقینی کے تناظر میں ہر اس شخص کو سلامتی کے حوالے سے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو غلطی سے بھی سرحد کے پار کر لے اور اسی سبب ایسے لوگوں کی رہائی کا معاملہ مشکلات میں پڑ جاتا ہے اور لوگ کئی کئی برس جیلوں میں ہی گزار دیتے ہیں۔

'اعتماد کی بحالی کی ایک کوشش‘

پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم اعتماد کی اس فضا میں سرحدوں پر پکڑے جانے والے افراد کی شناخت بعض اوقات ایک چیلنج ثابت ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ خوف کے سبب اپنا نام اور پتہ غلط بتا دیتے ہیں۔ اس سے حکام کے لیے ان افراد کی شہریت کی تصدیق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات سے بچنا ایک مشکل امر ہے: ''اہم بات یہ ہے کہ سرحدی حکام کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے ایسے افراد کے خاندان کا کھوج لگانا چاہیے، یہاں تک کہ جب وہ سکیورٹی کے حوالے سے ضروری اقدامات کر رہے ہوتے ہیں اس دوران بھی اسے یقینی بنایا جائے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ''اچھی خبر یہ ہے کہ ایسے بہت سے معاملات میں لوگوں کو بغیر کوئی نقصان پہنچائے ان کے گھروں کو واپس بھیج دیا جاتا ہے، بھلے اس میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ اسے ایک طرح سے پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد کی بحالی کی ایک معمولی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

ہارون جنجوعہ (اب ا/ب ج)