فاٹا اصلاحات، قبائلی خواتین کو کیا ملا؟
3 ستمبر 2016حال ہی میں پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں سیاسی معاشی اور قانونی سطح پر اصلاحات کی تجاویز پیش کی گئیں تاکہ کئی سالوں سے انتہا پسندی اور عسکریت پسندی پھیلانے والی تنظیم القاعدہ کا گڑھ بنے ہوئے اس لاقانونیت کے شکار اور پسماندہ علاقے کو باقی ملک کے ساتھ ضم کیا جا سکے۔
فاٹا کا علاقہ پاکستان کے صوبے خیبر پختون خواہ اور افغانستان کے درمیان سات اضلاع پر مشتمل ہے۔ تعلیم اور ترقیاتی کاموں کے فقدان کے سبب اور ایک نمائندہ سیاسی نظام کی غیر موجودگی میں یہاں عسکریت پسندی کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ پاکستانی حکومت نے قریب آٹھ ماہ قبل اس علاقے میں اصلاحات لانے اور سکیورٹی کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اور اب اس کمیٹی نے فاٹا کے لیے ترقیاتی اصلاحات تجویز کی ہیں۔ تاہم مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں یہ بحث جاری ہے کہ قبائلی علاقے کے لیے اصلاحات وضع کرتے ہوئے یہاں کی خواتین کی رائے کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے جو کم و بیش فاٹا کی کل آبادی کا پچاس فیصد ہیں۔
اس حوالے سے رواں ہفتے ایک فورم ’تکرہ قبائلی خوندے ُ نے جس کے معنی ’بہادر قبائلی بہن‘ کے ہیں، پاکستان کے شہر پشاور میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔ اس سیمینار میں فاٹا اصلاحات پر تنقید کرتے ہوئے شرکاء کا کہنا تھا کہ اصلاحات پیکیج میں خواتین کی آراء اور تجاویز کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق سیمینار میں کہا گیا کہ فاٹا میں رائج ’رواج ‘ کی رسم خواتین کے حقوق کے منافی ہے اس کے علاوہ قبائلی علاقوں میں مروجہ جرگہ نظام میں خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل نہیں کیا جاتا۔ یاد رہے کہ ’’ فاٹا ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز ہاؤس ہولڈ سروے ‘‘ کے مطابق یہاں خواتین کی خواندگی کی شرح محض سات اعشاریہ آٹھ فیصد جبکہ اس کے مقابلے میں مردوں کی شرح خواندگی پینتالیس فیصد ہے۔ فاٹا میں لائی جانے والی ان اصلاحات کو اس علاقے کی سیاسی حیثیت تبدیل کرنے اور بالآخر اسے خیبر پختون خواہ کے صوبے میں ضم کرنے میں پانچ سے دس سال کا عرصہ لگے گا۔