1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’فاٹا کا کے پی کے میں انضمام عوامی رائے جانے بغیر کیا گیا‘

25 مئی 2018

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی آئینی ترمیمی بل منظور کرلیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عوامی رائے کے بغیر کیے گئے اس فیصلے پر  اب عوامی حمایت کا فیصلہ انتخابات میں سامنے آئے گا۔ 

https://p.dw.com/p/2yL9V
Pakistan Islamabad Senat
تصویر: Imago/Xinhua

7 ایجنسیز اور 6 فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات،   فاٹا ، کسی صوبے کا حصہ نہیں اور یہ علاقے اپنی الگ حیثیت رکھتے ہیں ۔ تاہم اب اسے خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے لیے آئین میں 31ویں ترمیم کی گئی ہے۔

قومی اسمبلی میں قانونی مسودہ  پاس ہونے کے بعد سینٹ میں اس بل کی شق وار منظوری لی گئی جس کے بعد آئینی ترمیمی بل کی حمایت میں 71 اور مخالفت میں 5 ووٹ آئے۔ دوسری جانب حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔  مخالفت کرنے والوں کے مطابق فاٹا کا اسٹیٹس تبدیل کرتے وقت عوام کی رائے نہیں لی گئی بلکہ یہ فیصلہ ان پر مسلط کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے معروف صحافی اورتجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں،’’ حکومت اور فاٹا ریفارمز کمیٹی کہتی ہے کہ انضمام کے حق میں عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے ۔ اب جو سیاسی لوگ ہیں،  پڑھے لکھے لوگ ہیں یا جن کی پہنچ میڈیا تک ہے،وہ تو اس کے حق میں ہیں لیکن جو خاموش اکثریت ہے، ان کی رائے نہیں لی گئی۔ فاٹا ریفارمز کمیٹی جب اپنی رپورٹ تیار کر رہی تھی تو انہوں نے قبائلی علاقوں کا دورہ کیا اور جو لوگ ان سے ملے ان کی تعداد تقریباﹰ ڈھائی ہزار تھی۔ ان میں کچھ قبائلی عمائدین، کچھ پڑھے لکھے سیاسی لوگ شامل تھے۔لیکن ہونا یہ چاہئے تھا کہ عوام سے رائے لینے کے لیے جمہوری طریقہ اختیار کرتے۔ اب مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی کا مطالبہ ریفرنڈم کا تھا اور یہ ایک الگ صوبے کے حق میں ہیں جسے حکومت نے رد کر دیا تھا۔ میرا یہ خیال ہے کہ پاکستان کو یہ تشویش ہے کہ  اگر ان کا مطالبہ تسلیم کر لیا جائے علیحدہ صوبے کا تو باقی نئے صوبے کا مطالبہ کرنے والے ہیں، وہ بھی چاہیں گہ کہ ان کے مطالبات بھی منظور کیے جائیں۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہو گی۔ کئی لوگ اصطلاحات کے حق میں تو ہیں لیکن انضمام کے حق میں نہیں تو اب عوام اس بارے میں کیا کہتی ہے، اس کی اصل صورتحال عام انتخابات میں سامنے آئے گی۔‘‘ 

Karte von Pakistan mit Swat Region in gelb
تصویر: GFDL / Pahari Sahib

رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ اس بل کو بہت پہلے ہی پاس ہو جانا چاہئے تھا۔ اس پر دو سال سے بحث کی جا رہی تھی اور اب یہ اپنے قانونی اور آئینی تقاظوں کو پورا کرنے کے بعد نافذ ہو جائے گا   تاہم افسوس یہ ہے کہ اس پر اتنے سال مباحثے کے بعد بھی کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا، ’’  دو سال سے مسلم لیگ نواز کی حکومت کوشش کر رہی تھی کہ ان کے دو اتحادی، مولانا فضل الرحمان گروپ اور اچک خان زئی بھی انضمام کی حمایت کریں تاہم یہ اختلاف اب بھی برقرار ہے۔ اس کے باوجود اکثریت نے انضمام کے حق میں فیصلہ کر لیا ہے۔ اب اس کے اگلے اقدامات میں وقت لگے گا یعنی فوری طور پر انضمام نہیں ہوگا،کیونکہ فاٹا کی اپنی ایک حیثیت تھی ستر سال سے ، اسکا اپنا ایک نظام تھا، ایچ سی آر کا قانون تھا، تو یہ سب بدلنا پڑے گا۔ ان سب کی تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی ایک سال کا مزید وقت لگے گا جس کے بعد وہاں پولیس کا نظام ، عدلیہ کا نظام پھر وہاں جو خصوصی فنڈ قائم کیا جائے گا فاٹا میں ترقیاتی کام کے لیے تو یہ اس کے اگلے مرحلے ہیں۔‘‘

فاٹا کی خیبر پختونخوا میں انضمام کی منظوری لیکن حکومتی اتحادی ناراض

فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کا مخالف کون؟

اس بل کے بعد کہا جا رہا ہے کہ فاٹا کی تقریباﹰ پچاس لاکھ کی آبادی کو اس انضمام سے آئینی، قانونی، اقتصادی اور سیاسی حقوق ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔  اب اس سے فاٹا کی نمائندگی نہ صرف قومی اسمبلی میں ہو گی بلکہ خیبر پختوانخواہ اسمبلی میں بھی ہو گی۔ رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں، ’’ کوئی23 ارکان اسمبلی ان کے ہوں گے تو وہ اپنے حق کی بات بھی کریں گے اور ان کو فنڈز بھی ملیں گے۔اس کے علاوہ فاٹا کے نمائندے قانون سازی بھی کر سکیں گے۔ پہلے وہ پورے ملک کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ میں قانون سازی کر سکتے تھے لیکن اپنے فاٹا کے لیے قانون سازی نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ اس سال اکتوبر میں بلدیاتی انتخابات ہوگے تو اس سے فاٹا میں بھی بلدیاتی نظام کھڑا ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ ایک سو ارب روپے سالانہ دس سال کے لیے دیے جائیں گے، اس سے فاٹا میں ترقی ہو سکے گی کیونکہ فاٹا سب سے پسماندہ علاقہ ہے پورے پاکستان میں، لیکن اس حوالے سے ایک چیلینج یہ بھی ہو گا کہ پچیس ارب روپے سالانہ فاٹا کا اپنا ترقیاتی بجٹ ہے اور پھر سو ارب اور سالانہ اسے ملیں گے لیکن اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت فاٹا میں نہیں ہے۔پچیس ارب روپے بھی یہ خرچ نہیں کر سکتے تھے اسلیے انہیں وہاں اس رقم کو خرچ کرنے کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی لانا پڑے گی۔ اس کے علاوہ عدالت کا جو نظام قائم ہو گا اس سے پہلے کے موجود ایچ سی آر کا نظام ، اس سے نجات ملے گی، لوگوں کو اپیل کا حق مل جائے گا۔ پشاور ہائی کورٹ جا سکے گے، سپریم کورٹ جا سکیں گے۔ فاٹا میں شدید بے روزگاری ہے تو اس مسئلے سے بھی نجات مل سکے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ  پاکستان میں بہت سے اچھے قوانین بنتے ہیں، فیصلے ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور فاٹا کو تو ہمیشہ سے نظر انداز کیا گیا ہے تو اب توجہ کچھ اس طرف بھی ہو گی اور تقریباﹰ بیس لاکھ افراد جو ملٹری اور عسکری کارروائیوں کے باعث بے گھر ہوئے تھے، ان کی ایک بار پھر آبادکاری پر توجہ دی جائے گی۔  تو اگر عوام کو اس سے فائدہ ہو گا تو وہ اگلے انتخابات میں اپنی حمایت کا اظہار کریں گے۔ ‘‘

تجزئیہ کاروں کے مطابق اگر فاٹا کی عوام اس انضمام اور اصطلاحات کی مخالفت کا فیصلہ کرتی ہے تو وہاں ایک علیحدہ صوبے کا مطالبہ جس کو مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کی حمایت حاصل ہے، انتخابات میں اس کی بنیاد پر ووٹ مانگا جائے گا اور عوام کا جمہوری فیصلہ اس حوالے سے سامنے آسکے گا۔